Thursday 17 April 2014

شمارہ نمبر ۳ اپریل 2014




نبی اکرم ؐ کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد حکومت نے اپنے مشیروں کے مشورے سے فیصلہ کیا کہ فدک جو کہ آباد اور اچھی فصل دینے والا باغ تھا، اسے جناب زہرا ؑ سے لے لیا جائے تاکہ بقولِ خود ان کی آمدن کو جنگ کے اخراجات میں خرچ کرسکیں۔ کیونکہ نبی اکرم ؐ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں افواج کو اسلامی سرحدوں کی جانب روانہ کرنے پر بہت اصرار کیا تھا نیز اسلامی سرزمین کے بعض علاقوں میں بھی کچھ گروہوں نے سر اٹھایا ہوا تھا۔ لہٰذا فوج کے اخراجات کا انتظام کرنا ضروری تھا اور فدک اس مقصد کے لئے بہت موزوں ہے۔

لیکن درحقیقت جناب زہرا ؑ اور حضرت علی ؑ کو دنیاوی مال و متاع سے تہی دست کرنا تھا تاکہ وہ بے دست و پا ہوجائیں اور نئی حکومت کیلئے کسی قسم کا خطرہ نہ بن سکیں اور ان کی حکومت اطمینانِ خاطر کے ساتھ اپنی جڑوں کو مضبوط کرسکے۔
عوام کو بھی لوگوں کے باطن کا علم نہیں ہوتا، وہ تو بظاہر یہی دیکھتے ہیں کہ نئی حکومت متعدد مسائل سے دوچار ہے اور اسے مالی تعاون کی اشد ضرورت ہے اور دوسری طرف حضرت علی ؑ و زہرا ؑ کا خاندان ایک زاہد، قناعت پسند اور محنتی خاندان ہے کہ جنہیں مالِ دنیا سے جیبوں کو بھرنے کی نہ صرف یہ کہ کوئی آرزو نہیں ہے بلکہ وہ تو اس سے بیزار ہی ہیں۔
جناب زہرا ؑ کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جس نے اسلام کی خاطر سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ طبیعی طور پر لوگوں کو یہی توقع ہوتی ہے کہ اب بھی ویسی ہی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر قربانیاں دیں گے اور نہ صرف یہ کہ نئی حکومت سے کسی مال کا مطالبہ نہیں کریں گے بلکہ اپنا مال بھی ماضی کی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر اسلامی حکومت کے حوالے کردیں گے اور اسلامی نظام کا انحطاط سے بچانے اور سامراجی اور طاقتور حکومتوں کو مدینہ پر حملہ کرنے سے روکنے کیلئے خلیفہ کی مدد بھی کریں گے۔ اس صورتحال میں اگر وہ انحرافات کو بیان کرنا چاہیں تو اس پر کوئی توجہ نہیں دے گا اور ان کی باتوں کو دوسرے معاملات پر حمل کیا جائے گا خصوصاً اگر پروپیگنڈہ مشینری دوسروں کے ہاتھوں میں ہو۔
ایسی فضا میں صراطِ مستقیم سے حکومتی انحراف کو بیان کرنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ کیونکہ عوام نہ صرف یہ کہ تشخیص نہیں کرسکتے کہ حکومت صراطِ مستقیم سے منحرف ہوچکی ہے بلکہ وہ تو حاکم کی مخالفت کی سازشوں سے غفلت اور موقع پرست نو مسلموں کی موقع پرستی سے چشم پوشی اور منافقوں کی ریشہ دوانیوں سے لاپرواہی شمار کرتے ہیں۔
لہٰذا جناب فاطمہ ؑ جو کہ اس فضا کو توڑنا چاہتی ہیں، کیلئے ضروری تھا کہ سب سے پہلے اپنا علمی و ادرا کی مقام، عقل و درایت اور اپنے جذبات پر کنڑول کی صلاحیت کو لوگوں کے سامنے ثابت کریں۔ موجودہ اور گزشتہ حالات کو عقل و درایت کے ساتھ لوگوں کو بتائیں تاکہ کوئی ان پر زمینیحالات سے بے خبری کی تہمت نہ لگا سکے۔ توحید و نبوت وغیرہ کی وضاحت کریں اور اپنا مقصد بیان کریں تاکہ لوگ آپ کو دنیا پرست نہ سمجھیں۔ اسی کے ضمن میں انحرافات کا بھی ذکر کریں اور اس پر اصرار کریں تاکہ لوگ اس جانب متوجہ ہوجائیں۔
لہٰذا مسجد کی جانب جانے کی آپ ؑ کی کیفیت مخصوص تھی۔ لباس کا انداز، مسجد میں داخلے کی کیفیت، آپ ؑ کی گریہ و زاری، آپ ؑ کے خطبہ کا انداز، ان سب میں ایک خاص روش نظر آتی ہے تاکہ اس ایک خطبے کے ذریعے وہ عظیم مقصد حاصل ہوجائے جو آپ ؑ کے پیشِ نظر تھا۔ اگرچہ اس زمانے میں وہ مقاصد حاصل نہ ہوئے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بی بی کی سچائی اور حاکموں کا انحراف ثابت ہوگیا۔
آپ کا چلنے کا انداز
آپ ؑ نے اس وقار کے ساتھ راستہ طے کیا کہ لوگوں نے کہا: آپ ؑ کا چلنا رسول ؐ کی چال سے کسی طرح کم نہ تھا۔ گویا یہ جنابِ نبی اکرم ؐ تھے جو پورے وقار کے ساتھ، کسی اضطراب کے بغیر اور بھرپور اطمینان کے ساتھ قدم اٹھا رہے تھے۔ جب آپ مسجد میں پہنچیں تو وہاں خلیفۂ وقت مسلمان مہاجرین و انصار کے درمیان موجود تھے۔ بی بی زہرا ؑ تنہا وہاں نہیں پہنچیں کہ جس سے آپ کا یہ عمل ایک جذباتی عمل محسوس ہو بلکہ خاندان کی بعض عورتوں کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئیں۔ آپ کا لباس اتنا لمبا تھا کہ پیر بھی چھپے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ چلتے ہوئے دامن قدموں تلے آجاتا تھا۔
اس طرح چلنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ یہ بتادیں کہ آپ کا نکلنا اور مسجد میں آنا بابا کی جدائی کے ہیجان اور جذبات کی بنیاد پر نہیں ہے۔ بلکہ شعور و آگہی کے ساتھ اور ایک خاص مقصد کے تحت ہے اور کسی اہم بات کے بیان کیلئے آپ تشریف لائی ہیں۔
طبیعی طور پر غمزدہ لوگوں نے جب بی بی فاطمہ ؑ اور دوسری عورتوں کو مسجد میں آتے ہوئے دیکھا تو ان کیلئے ایک مخصوص جگہ خالی کر دی اور سفید پردہ تان دیا تاکہ عورتیں غم مناسکیں۔ لیکن مسلمانوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ یہ کونسا وقت ہے کہ جب بی بی فاطمہ ؑ مسجد میں تشریف لائی ہیں؟ کیا بابا کی وفات کا غم آپ کو یہاں کھینچ لایا ہے؟ کیا بابا کا کوئی واقعہ یا کوئی جملہ آپ کو یاد آگیا ہے؟ آپ کیوں خاموشی سے، کسی شور و فغاں کے بغیر حتیٰ کہ جذبات و احساسات کی شدت اور گریہ و زاری کے بغیر جو کہ عام طور پر تمام عورتوں کا خاصہ ہے، مسجد میں آئی ہیں؟ اتنے وقار کے ساتھ اپنے بابا کے سے انداز میں کیوں تشریف لائی ہیں؟
بی بی زہرا ؑ کا گریہ کرنا اور خاموشی اختیار کرنا
پردہ تان دیئے جانے کے بعد یکایک بی بی نے جانسوز آہ بھری، جس سے پوری مسجد آہ فغان سے لرز اٹھی۔ سب لوگ بے اختیار رونے لگے۔ اس کے بعد آپ نے کچھ دیر سکوت اختیار کیا یہاں تک کہ لوگ خاموش ہوگئے اس کے بعد آپ نے خطبے کا آغاز کیا۔
قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ بی بی نے مسجد میں داخل ہوتے وقت گریہ کیوں نہیں کیا؟ پردہ ڈالتے وقت آپ کیوں خاموش تھیں؟ اور درد بھری آہ بھرنے کے بعد آپ خاموش کیوں ہوگئیں؟ جب کہ مہاجرین و انصار اس وقت گریہ کر رہے تھے۔ یاد رہے کہ عورتوں کی طبیعت نازک ہوتی ہے اور ایک عورت کو تو دوسروں سے زیادہ گریہ کرنا چاہیے جبکہ آپ تو آنحضور ؐ کی بیٹی تھیں۔ لہٰذا آپ کا گریہ تو سب سے زیادہ اور سب سے طویل تر ہونا چاہیے تھا۔ پھر کیوں آپ نے یکایک خاموشی اختیار کر لی اور اس کے بعد کافی دیر تک سکوت اختیار کیا یہاں تک کہ دوسرے لوگ خاموش ہوگئے؟ یہ سب کس لئے تھا؟
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بی بی فاطمہ ؑ اپنی اس متوازن چال ڈھال اور اختیاری گریہ و سکوت کے ذریعے سے جذبات پر اپنے کنڑول کی نشاندہی کرنا چاہتی ہیں اور بتانا چاہتی ہیں کہ اگرچہ آپ نے ایسے باپ کو کھویا ہے جس کے غم میں پوری کائنات نوحہ کناں ہے، حالانکہ خود آپ ہی دوسری جگہ فرماتی ہیں کہ ’’مجھ پر زمانے نے ایسے ستم ڈھائے ہیں کہ اگر روشن دنوں پر پڑتے تو وہ راتوں میں تبدیل ہوجاتے۔‘‘ اگرچہ کہ آپ ایک عورت ہیں اور مشکلات و مصائب کو برداشت کرنا عورتوں کیلئے زیادہ دشوار ہے، اور یہ کہ گریہ وزاری اختیار نہیں ہوتا لیکن وہ چاہتی ہیں کہ شجاعت، شہامت اور اپنے جذبات پر کنڑول کا مظاہرہ کریں اور بتادیں کہ ہم سب غمزدہ ہیں لیکن میں ایک لمحے میں رو سکتی ہوں اور اگلے لمحے میں سکوت اختیار کرسکتی ہوں۔ میں پورے وقار اور شان کے ساتھ قدم اٹھا سکتی ہوں اور جب دوسرے لوگوں کا گریہ پورے عروج پر ہو تو میں خاموش ہوسکتی ہوں۔
خطبے کے آغاز میں پُرجوش کلمات کا انتخاب
اس کے بعد آپ نے خطبے کا آغاز کیا۔ لیکن ایسا خطبہ کہ جو گریہ و اشک کے ساتھ نہیں ہے۔ ایسا خطبہ کہ جس میں آواز میں اضطراب نہیں ہے، بلکہ پاٹ دار اور مضبوط ہے۔ استعمال ہونے والے الفاظ کا لہجہ جوشیلے انداز کی غمازی کرتا ہے۔ عام طور پر جب کوئی سوزوگداز کے ساتھ خطبہ دینا چاہے تو ایسے کلمات کا انتخاب کرتا ہے جس کے حروف کھینچے جاسکیں۔ مثلاً ایسے کلمات جو ’’ین‘‘ یا ’’ون‘‘ پر ختم ہوتے ہو رہے ہوں۔ مثال کے طور پر ’’الحمد للہ رب العالمین، باریء الخلائق اجمعین، مالک یوم الدین، مبیر الظالمین‘‘ تاکہ اگر کہیں آواز بھراجائے اور آنسو اس کے گلے میں رکاوٹ پیدا کر دیں تو وہ حروف مد (واور ی) کو کھینچ کر اس کی تلافی کرسکے۔ اور اگر کسی کو معلوم نہ ہو کہ آگے اس کے کیا کیفیت ہوگی تو وہ بھی احتیاطً ایسے ہی کلمات کا انتخاب کرتا ہے لیکن جنابِ زہرا ؑ مرضیہ ؑ نے ایسے کلمات کا انتخاب کیا کہ جس میں معمولی سی لرزش اور اضطراب کا اثر بھی واضح نظر آتا ہے۔ چنانچہ بلند آواز سے فرمایا:
الحمد للّٰہ علی ماالھم، ولہ الشکر علی ماانعم، والثناء بما قدم، من عموم نعمۃ ابتداھا، و سبوغ آلاء اسدادھا، و تمام مِنن اولاھا، جم عن الاحصاء عددھا و نایٰ عن الجزاء مدھا وتفاوت عن الادراک ابدھا، وی ندبھم لا ستزادتھا بالشکر الاتصالھا و استحمد الی الخلائق باجز الھا وثنی بالنڈب الیٰ امثالھا۔۔۔
ان الفاظ کے معانی کی گہرائیاں جاننے کیلئے شرح کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے فی الوقت ہمارا مقصد کلمات کی ہم آہنگی، ان کی ترتیب اور ان کے آخری حروف ہیں کہ جن پر یہ کلمات ختم ہوتے ہیں۔ ہر قاری ان کلمات کو روتے ہوئے، بھرائی ہوئی اور گلوگیر آواز میں خود پڑھ کر دیکھ سکتا ہے کہ یہ کلمات ان حالتوں میں پڑھنے کیلئے نہیں ہیں۔ لہٰذا قطعاً بی بی زہرا ؑ اس خطاب کے وقت گریہ وزاری نہیں کر رہی تھیں بلکہ ایک شعلہ بیاں، پُرجوش اور فصیح و بلیغ مقرر کی طرح ان کلمات اور ان جملوں کو پے در پے بلند آواز سے ادا کر رہی تھیں۔
بزرگ ادیب اور اس خطبہ کا مقدمہ
بہت جلد قوم کے بزرگ، صاحبانِ علم و دانش اور جو لوگ اجتماعی اور روحی معاملات کی سوجھ بوجھ رکھتے تھے، وہ سمجھ گئے کہ بی بی ایک عام شخصیت نہیں ہیں۔ یہ وہ غمزدہ عورت نہیں ہیں جسے باپ کی موت نے بدحواس کر دیا ہو اور وہ اپنے آپ پر قابو نہ پا رہی ہوں اور خود کو رونے سے نہ روک سکتی ہوں بلکہ یہ وہ خاتون ہیں جو شعوری طور پر ایسے کلمات کا انتخاب کرتی ہیں جو جوش و خروش کی حالت میں انسانی ذہن سے ابھرتے ہیں۔ آپ کے خطاب کو ایک دانشور اور صاحبِ حکمت انسان کا کلام سمجھنا چاہیے اور دل و جان سے سماعت کرنا چاہیے۔
جنابِ زہرا ؑ نے ان حرکات و سکنات کے ذریعے اور فراز و نشیب کو اختیار کر کے ابتداء ہی میں یہ ثابت کر دیا کہ یہ خاندانی جذبات و احساسات نہیں تھے جو انہیں مسجد میں کھینچ لائے ہوں اور انہیں خطبہ دینے پر مجبور کر دیا ہو، بلکہ اس سے اہم کوئی اور مقصد ہے جس کا بیان ہونا ضروری ہے۔ آپ کا مسجد میں داخل ہونے کا انداز اور خطبہ شروع کرنے کا طریقہ اور ابتدائی کلمات نے اس طرح سب کو فریفتہ کر لیا ہے کہ ابن ابی الحدید معتزلی نے اپنی شرحِ نہج البلاغہ میں حضرت علی ؑ کے خط نمبر ۴۵ کی شرح میں، جو آپ نے عثمان بن حنیف کو لکھا تھا اور اس میں فدک کا ذکر آیا ہے، بی بی کے خطبے کا کچھ حصہ نقل کیا ہے اور اس سے پہلے آپ کے مسجد میں داخل ہونے کا انداز، گریہ و زاری، سکوت و ابتدائی کلمات کا ذکر کیا ہے اور اس کے بعد فدک کے بارے میں امام کے جملات کی تشریح کی ہے۔
ابن ابی الحدید کا ان چیزوں کو بیان کرنا یہ بتاتا ہے کہ یہ باتیں اس کی نظر میں بھی بہت اہمیت کی حامل ہیں بصورتِ دیگر وہ ان مقدمات کا ذکر نہ کرتا اور براہِ راست فدک سے متعلق گفتگو کو نقل کرتا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ادیبوں اور دانشوروں کی نگاہ سے بی بی کا ان حرکات و سکنات سے جو مقصد تھا وہ پوشیدہ نہیں رہا ہے۔ اگرچہ عوام الناس اس وقت آپ کے مقصد کو نہ سمجھ پائی ہو۔ بنابریں، جناب فاطمہ ؑ نے وقت گزرنے کے ساتھ اپنا مقصد حاصل کرلیا ہے اور وہ یہ تھا کہ اپنی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالیں اور انحرافاتِ دربار سے پردہ اٹھائیں۔
خطبہ جناب فاطمہ ؑ کا جائزہ
چونکہ فی الوقت ہم جناب فاطمہ ؑ کے خطبے کی شرح نہیں کرنا چاہتے اور ہماری نگاہ اس خطبے کے فلسفے اور مقصد کی طرف مرکوز ہیں اور ہم یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ بی بی نے اس خطبے کے ذریعے اپنی شناخت کروائی اور اپنے علم و شعور اور مہارت کو ثابت کیا اور واضح کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ فرمانا کہ:
’’فاطمۃ بضعۃ منی‘‘ یا ’’فداھا ابوھا‘‘
رشتہ داری کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ آپ کے ذات ایک ایسا گوہرِ گرانمایہ تھی جسے کسی نے نہ پہنچانا اور اس خطبے میں صرف اس کا ایک پہلو سامنے آیا ہے اور یہ کلام آپ کے نور کی ایک معمولی تجلی گاہ بن گیا ہے، اس لئے ہم اس خطبے کی ضمنی پہلوؤں کی طرف توجہ دیں گے۔
یہ خطبہ تقریباً ۱۲۰ سطروں پر مشتمل ہے۔ جس کا دس فیصد حمد و باری تعالیٰ، دس فیصد توصیفِ رسالت مآبؐ، پانچ فیصد توصیفِ قرآن، تقریباً دس فیصد فلسفہ احکام کا بیان ہے۔ اس حصے میں دین اسلام کے بیس بنیادی موضوعات اور ارکانِ اسلام کی حکمت اور ان کا فلسفہ بیان ہوا ہے۔ اس کے دس فیصد حصے کو رسول ؐ کے کاموں سے مختص کیا ہے تاکہ یہ بتائیں کہ لوگوں کو کہاں سے کہاں پہنچایا اور پانچ فیصد میں حضرت علی ؑ کی قربانیوں کا تذکرہ ہے جب کہ دوسرے لوگ تن آسانی میں مشغول تھے۔ یہاں تک خطبہ نصف ہوجاتا ہے۔
یہاں سے بی بی معاشرے کے انحرافات کا ذکر چھیڑتی ہیں اور شیطان کی سازشوں نیز انحرافات کے تلخ اثرات کا بیان کرتی ہیں جس سے لوگ جلد دوچار ہونیوالے ہیں۔ یہ بھی خطبے کا دس فیصد حصہ ہے۔ اس کے بعد فدک کا بیان شروع کرتی ہیں جس میں دلائل ہیں اور قرآن مجید کی پانچ آیتوں کے ساتھ یہ حصہ بھی دس فیصد ہوجاتا ہے۔
بالفاظِ دیگر اس خطبے میں فدک پر اپنے حق کا دفاع کرنے کے لئے نصف حصہ مختص فرمایا جس میں حمدِ خدا اور توصیفِ نبیؐ بھی شامل ہے۔ شاید بی بی کو یہ برحق توقع تھی کہ خطبے کے اتنے حصے سے حاکم اپنی غلطی کو سمجھ لے اور خود کو اس مقام سے ہٹالے جس کا پہلا ہی قدم غلط اٹھا تھا یا مسلمان اس کو برطرف کرنے کا سوچیں لیکن جب آپ نے دیکھا کہ ایسا نہیں ہوا تو اگلی تیس سطروں میں انصار سے خطاب کیا جس میں ان کی قربانیوں اور اسلام میں ان کا سابقہ دہرایا اور ان سے کہا کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں اور جو ظلم آپ پر ہوا ہے اس کا دفاع کریں۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہوا اور وہ بی بی پر ہونے والے ظلم کے خلاف مہرسکوت توڑنے پر بھی رضامند نہ ہوئے اور اس طرح خطبے کا دوسرا نصف حصہ بھی پورا ہوا۔ شاید یا حتمی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس زمانے کے بہت سے لوگ بی بی فاطمہ ؑ کے کلمات کے استعمال پر دقتِ نظر سے غافل تھے اور اسے ایک اتفاق سمجھ رہے تھے لیکن آج جب اس خطبے کی تحریر اپنے سامنے رکھتے ہیں تو اس خطبے میں پوری تدبیر اور تنظیم نظر آتی ہے کہ آپ ایک چوتھائی حصے کو اپنے حق کے دفاع اور موجودہ حالات کی وضاحت طلبی کیلئے کافی سمجھتی تھیں لیکن جب کوئی اثر نہ ہوا تو سب لوگوں کو اور خصوصاً انصار کو موردِ عتاب قرار دیا اور اپنے کلام کا تایانہ ان کے ذہن و فکر پر برسایہ اور بتایا کہ اسلام کی نئی حکومت کی حفاظت کا کام اسی سوسائٹی میں موجود ایک فرد پر ظلم کر کے انجام نہیں دیا جاسکتا اور ایسی اسلامی حکومت پر دل کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا کہ جس میں ایک شخص (بنامِ فاطمہؑ ) پر ظلم ہوا اور دوسرے خاموش رہے اور یہ خاموشی اس لئے نہیں تھی کہ اس میں مصلحت اور خدا کی خوشنودی کے طالب تھے بلکہ یہ ان کی تن آسانی اور موقع پرستی تھی۔ ہاں جب کسی سوسائٹی میں حضرت فاطمہ ؑ و امام علی ؑ جیسی مشہور شخصیات پر ظلم ہوتا رہے جو کہ ایثار و قربانی اور قیام و استقامت کا مظہر ہیں، تو مسلمہ طور پر دوسروں پر ظلم ہوگا اور ایسے معاشرے کو خدا کا پسندیدہ اور رسولؐ کیلئے قابلِ قبول سوسائٹی قرار نہیں دیا جاسکتا۔
خطبہ فدک کا اصلی ہدف
اگرچہ جناب فاطمہ ؑ کی مدد کیلئے کوئی نہیں اٹھا اور ان کے کلم�ۂ حق کو یاور و انصار نصیب نہیں ہوئے اور حاکمِ وقت نے بظاہر تسلیم کرتے ہوئے یہ خطا عام مسلمانوں کے سر ڈال دی اور انہیں بھی اپنے ساتھ شریک گردانا اور جناب فاطمہ ؑ کا احترام بجالا کر معاملات و حالات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی لیکن جو کچھ معلوم ہونا چاہیے تھا وہ ہوگیا۔ جو بات بی بی کی تقریر سے روزِ روشن کی طرح عیاں تھی وہ یہ تھی کہ فدک کو جناب فاطمہ ؑ کے قبضے سے چھیننا قرآن مجید کی پانچ آیتوں کی صریح مخالفت ہے۔ اگر کوئی حاکم اپنی حکومت کے ابتدائی ایام میں جو کہ سنہری ایام ہیں اور رسول ؐ کی وفات کو بھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے اور سب لوگ یہ سمجھ چکے ہیں کہ موت کا ذائقہ ہر ایک کو چکھنا ہے اور اس کے باوجود قرآن اس کی طرح مخالفت کرے اور جب سب سے پہلا مظلوم اتنی مشہور، ایثارگر اور رسولؐ کی اکلوتی اولاد ہو تو ایسی حکومت مضبوط ہوجانے کے بعد اور اپنے جڑیں مضبوط کرلینے کے بعد عام اور غیر معروف لوگوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھے گی؟ اور جب قرآن کی محکم اور واضح آیات کی جو کہ امہات کتاب ہیں، عمداً یا سہواً مخالفت کی جائے تو پھر کتاب خدا میں سے اور کیا رہ جائے گا؟
اگر مخاطب نے کلام کی گہرائی کو سمجھ لیا ہوتا اور دل میں اخلاص ہوتا تو فوراً کنارہ کشی اختیار کر لی جاتی اور اگر لوگ آپ ؑ کی گفتگو کی حقیقت کو جان لیتے تو خود قدم اٹھاتے۔ جنابِ فاطمہ ؑ کو بھی اسی بات کا انتظار تھا چنانچہ جب گھر واپس لوٹیں تو حضرت علی ؑ سے فرمایا: میں اس حال میں گھر سے نکلی تھی کہ: ’’حرجت کاظمۃ و عدت راغمۃ‘‘ بنابریں جنابِ فاطمہ ؑ کی جو تعریف جواب میں کی گئی اسے سنجیدہ نہیں لینا چاہیے کہ پہلے تو بی بی سے اشارتاً کہا کہ آپ کے بابا کافروں پر سخت اور مومنوں پر رحیم تھے۔ لہٰذا آپ کو بھی ہم پر رحیم ہونا چاہیے اور شمشیرِ زبان کو دشمن پر چلانا چاہیے، نیز یہ کہ بی بی کا عمل جنابِ رسول ؐ کے عمل سے (نعوذباللہ) مختلف تھا اور اس کے بعد آپ کی تعریف کرنا شروع کی کہ آپ تو صدیقہ ہیں، حق اور جنت کی جانب ہماری راہنماء آپ کی عقل و دانش کسی پر پوشیدہ نہیں وغیرہ۔
پھر اس سوال کے جواب میں کہ اگر ایسا ہے تو میرا حق کیوں غصب کیا ہے؟ فدک کے بارے میں میری بات کو اہمیت کیوں نہیں دی جارہی؟ اور فرمانِ خدا اور رسولؐ جو کہ بہشت کی طرف راہنما ہیں، کی مخالفت کیوں کی جارہی ہے؟ یہ کہا: خدا کی قسم میں نے رسولؐ کی رائے تجویز کیا ہے جو کچھ کیا وہ انہی کی اجازت سے تھا۔ اور قافلہ سالار کبھی اپنے ساتھیوں سے جھوٹ نہیں بولتا۔ میں خدا کو گواہ ٹھہراتا ہوں اور اس کی گواہی کافی ہے کہ میں نے رسول ؐ کو سنا کہ آپ نے فرمایا ’’ہم گروہِ انبیاء سونا چاندی، گھر اور زمین وراثت نہیں چھوڑتے بلکہ صرف کتاب، حکمت، علم اور نبوت کی میراث چھوڑتے ہیں اور جو کچھ ہمارے بعد باقی بچے وہ ہمارے بعد آنے والی آمر کے اختیار میں ہوتا ہے وہ جس طرح مصلحت سمجھے تصرف کرسکتا ہے‘‘
اس حدیث کو جناب فاطمہ ؑ نے قرآنی آیات کی مدد سے غلط ثابت کر دیا تھا لیکن اس کے ذریعے سے وہ چاہتے تھے کہ فدک کے ملکیتِ فاطمہ ؑ میں ہونے کا انکار کریں اور پھر قسم بھی کھائی اور خدا کو گواہ بھی ٹھہرایا تاکہ مسجد میں موجود لوگ جو کہ یقیناًبی بی کے خطبے کے زیرِ اثر تھے، انہیں اپنی جانب مائل کر لیا جائے اور وہ جان لیں کہ دین کے خلاف کوئی کام انجام نہیں پایا ہے اور فدک کی قرقی رسول اکرم ؐ کے حکم اور ان کی حدیث کے مطابق ہے۔
اس کے بعد فدک کے استعمال کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ بھی مسلمانوں کے اجماع کے مطابق ہے کہ اسے باطل کی راہ میں خرچ نہیں کر رہے بلکہ کافروں اور مرتدوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔
اس موقع پر جنابِ صدیقہ ؑ نے ایک ’’سبحان اللہ‘‘ کہہ کر تمام باتوں پر پانی پھیر دیا اور فرمایا: سبحان للہ! میرے بابا رسول ؐ نے کتاب خدا سے کبھی منہ نہیں موڑا اور نہ وہ اس کے احکام کے مخالف تھے۔
سبحان اللہ کا جملہ اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کوئی بہت بے تکی تہمت کسی پر لگائے جس کے غلط ہونے کا سب کو اچھی طرح علم ہو۔ گویا یہ تہمت خدا پر بھی جاتی ہو کہ اس نے ایسے غلط انسان کو پیدا کر کے کوئی معیوب کام کیا ہے۔
بہرصورت بی بی فاطمہ ؑ نے ایک سبحان اللہ کہہ کر سب کو یہ جتا دیا کہ یہ سب باتیں غیر حقیقی ہیں اور پھر اپنی بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ یا رسول ؐ کلام الہٰی سے روگرداں تھے؟
اس کے بعد دوبارہ اور مزید تاکید کے ساتھ اور قرآنی آیات کی تلاوت کر کے حاکم کی دلیلوں کو باطل ثابت کرتی ہیں۔
اس مرتبہ وہ یہ کہہ کر ’’خدا، رسولؐ اور ان کی بیٹی سچ فرماتی ہیں۔‘‘ ان کی تعریف کرتا ہے لیکن اپنے تمام اعمال کا گناہ مسلمانوں پر ڈالتے ہوئے کہتا ہے: یہ مسلمان میرے اور آپ کے درمیان فیصلہ کریں گے۔ انہوں نے حکومت میرے کاندھوں پر ڈالی ہے اور میں نے ان کے اتفاق اور اجماع سے فدک پر قبضہ کیا ہے۔
اس موقع پر آخری اتمامِ حجت کیلئے بی بی نے عام مسلمانوں سے خطاب کیا اور باطل امور کی قبولیت اور حق سے چشم پوشی نیز قرآن پر تدبرنہ کرنے پر ان کی مذمت کی اور جب دیکھا کہ وہ کسی صورت بھی اپنے عمل سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں ہیں اور کسی بھی وجہ سے ان کے حق کا دفاع نہیں کرنا چاہتے تو پدرِ بزرگوار کی قبر کی طرف رُخ کیا اور چند اشعار پڑھ کر مقامِ اہلبیت ؑ اور مخالفوں کی بدعتوں کو طشت از بام کرنے کے بعد مسجد سے باہر نکل گئیں۔


تاریخِ انسانی میں عورت ہمیشہ ظلم کا شکار رہی ہے۔ اگر عورت کی کوئی حیثیت تھی تو وہ فقط عیش و نوش کی محفلوں کو سجانے اور مرد کی آتشِ ہوس کو بجھانے کی حد تک لیکن اسلام نے نہ صرف یہ کہ اس جاہلانہ طرزِ فکر کی نفی کی بلکہ عورت کو انسانیت کے میزان میں مرد کے مساوی پلڑے میں قرار دیا۔ شاید اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی اعلیٰ ترین ذاتِ والا صفات یعنی اپنے آخری رسول محمد مصطفی ؐ کو ایسی جامع صفات بیٹی سے نوازا جس کو سیدۃ نساء العالمین (کائنات کی عورتوں کی سردار) قرار دیا گیا۔ اور بحق کہ فاطمہ زہرا ؑ نے اپنے انفرادی اور اجتماعی کردار و گفتار سے معاشرے میں عورت کی حقیقی حیثیت اور مقام کو ثابت کرتے ہوئے جہالت کے ان تمام بتوں کو توڑ دیا جو عورت کے وجود کی عظمت کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانا چاہتے تھے۔
لیکن آج عورت پھر ان ہوسرانوں کی ہوس کی زد پر ہے، آج پھر عورت کو اس کے بلند و بالا مقام سے گرا کر پستیوں میں دھکیلا جارہا ہے، آج پھر اسے اس کی اعلیٰ اور عظیم صفات سے محروم کر کے محافلِ عیش و نوش کی زینت بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اور آج اگر عورت کو اس قید سے کوئی چیز آزادی دلاسکتی ہے تو وہ جنابِ فاطمہ ؑ کی سیرتِ طیبہ ہے۔ صرف اور صرف آپ ؑ کا کردار اور گفتار ہی آج کی عورت کو اس کا حقیقی مقام اور منزلت عطا کرسکتے ہے۔ حضرت فاطمہ ؑ کی سیرتِ طیبہ پر عمل کرنے کیلئے ہم نے آپ ؑ کی بیان کردہ احادیث میں سے بیس احادیث کا انتخاب کیا ہے تاکہ آپ ؑ کی سیرت و کردار کی نمونۂ عمل بنایا جاسکے۔
شریکِ حیات
حدیث نمبر۱: گھریلو زندگی کی حیات اور تازگی کا سہرا ہماری جفاکش اور وفا شعار مشرقی عورت کے سر ہے۔ وہی اس گھریلو زندگی کو بہترین نظم و ضبط کے ساتھ چلاتی ہے۔ اسی کہ مہربانی، ایثار، قربانی اور خدمت گھر کو جنت بنادیتی ہے۔ عورت گلشنِ حیات کا وہ تروتازہ اور مہکتا پھول ہے کہ جس کا نظارہ اور خوشبو تھکاوٹ کو دور، خستہ حالی کو شادابی اور شوہر کے پریشان حال دل کو مطمئن کر دیتی ہے۔
ایک دن حضرت علی ؑ نے فرمایا: اے فاطمہ ؑ آیا گھر میں کچھ کھانے کو ہے؟ گھر میں جو کھانا تھا وہ ایک دن پہلے کھایا جاچکا تھا اس لئے بی بی نے انکار کیا تو امام ؑ نے فرمایا: فاطمہ ؑ ! مجھے کیوں نہیں بتایا تاکہ میں کھانے کا انتظام کرتا؟
جناب فاطمہ ؑ نے فرمایا:
’’اے ابوالحسن! مجھے اپنے پروردگار سے حیا آتی ہے کہ میں آپ سے اس چیز کی درخواست کروں کہ جسے پورا کرنے کی آپ میں (مالی) استطاعت نہ ہو۔‘‘
خالص عبادت
حدیث نمبر۲: ہر چیز کی ایک زینت ہوتی ہے۔ عبادت اور تمام انسانی افعال کی زینت ’’خلوص‘‘ ہے۔ خلوص ہی سے عبادت کو اوج اور عظمت حاصل ہوتی ہے۔ جو شخص اپنی عبادات کو (حرص، طمع، شرک و ریا اور تمام روحانی آلودگیوں سے) خالص کر کے خدا کے لئے بجالائے گا اللہ عزوجل اس کی (تمام مادی و معنوی) مصلحت کو بہترین طریقے سے اس کی جانب نازل فرمائے گا۔
حضرت فاطمہ ؑ نے فرمایا:
’’جو شخص اپنی خالص عبادت اللہ کی جانب بھیجے گا، تو پروردگار اس کی بہترین مصلحت اس کی طرف بھیجے گا۔‘‘
حسنِ سلوک کا اجر
حدیث نمبر۳: خندہ پیشانی اور شادابی کے ساتھ ملاقات کرنا ہمیشہ مفید ہے۔
حضرت فاطمہ ؑ فرماتی ہیں:
’’مومن کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنے کی جزا جنت ہے، اور دشمن اور جھگڑالو قسم کے افراد کے ساتھ خوش اخلاقی انسان کو آگ کے عذاب سے نجات دلاتی ہے۔
آپ ؑ کی نظر میں شادی
حدیث نمبر ۴: اسلام نے دورِ جہالت کے افکار و عقائد پر خطِ بطلان کھینچتے ہوئے شوہر کے انتخاب میں باپ اور بیٹی کے درمیان تبادل�ۂ خیالات اور مشورے کا حکم دیا ہے، تاکہ ایک عورت علم و شعور کے ساتھ اپنے لئے شریکِ حیات کا انتخاب کرے۔ اسی تربیتی اور نفسیاتی نکتے کو ملحوظ رکھتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جب حضرت فاطمہ ؑ سے شادی کے متعلق مشورہ طلب کیا تو آپ ؑ زیرِ لب مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوئیں۔ 
’’میں اس بات سے راضی ہوں کہ اللہ میرا پروردگار ہے اور اے پدر گرامی آپ میرے پیغمبر اور میرے چچا زاد علی ؑ میرے شوہر اور امام ہوں۔‘‘ شادی کے بعد جب رسول اکرم ؐ نے حضرت فاطمہ ؑ سے سوال کیا: بیٹی تم نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟ تو آپ ؑ نے فرمایا:
’’بابا جان میں نے (علی ؑ کو) بہترین شوہر پایا۔ (جو زندگی کے ہر کام خصوصاً خدا کی عبادت میں میرے مددگار و معاون ہیں)‘‘۔
علی ؑ کی پہچان
حدیث نمبر۵: ابوالدرداء نے بی بی فاطمہ ؑ کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ میں نے علی ؑ کو سجدے کی حالت میں دیکھا ہے وہ کوئی جواب نہیں دیتے، خدانخواستہ شاید اس دنیا سے گزر چکے ہیں۔
جناب فاطمہ ؑ نے اطمینان سے فرمایا:
’’خدا کی قسم علی ؑ کی یہ حالت ایک قسم کی بے ہوشی ہے جو خوفِ خدا کی وجہ سے علی ؑ پر طاری ہوجاتی ہے۔‘‘
ازدواجی زندگی کا آغاز
حدیث نمبر۶: شادی ایک نئی زندگی کا آغاز ہے۔ اس مشترکہ زندگی کی خوشی میں لوگ انواع و اقسام کے گناہوں میں مبتلا ہو کر اس زندگی کی ابتداء میں جو معنویت خدا نے رکھی ہے اسے ضائع کر دیتے ہیں اور زندگی میں ایک بار آنے والی خوشی ہر قسم کے گناہوں کو اپنے لئے جائز سمجھ لیتے ہیں۔
ہمیں دیکھنا چاہیے کہ دنیا کی تمام خواتین اور خصوصاً مسلمان عورتوں کیلئے نمون�ۂ عمل جنابِ فاطمہ ؑ کا اس اہم موقع پر کیا انداز ہے؟ ہمیں توجہ دینی چاہیے کہ آپ ؑ اپنی مشترکہ زندگی کا آغاز کس طرح کر رہی ہیں؟
حضرت علی ؑ نے دیکھا کہ شبِ ازدواج حضرت فاطمہ ؑ بہت پریشان اور مضطرب ہیں۔ یہ دیکھ کر حضرت علی ؑ نے سوال کیا: اے فاطمہ ؑ آپ پریشان کیوں ہیں؟ آپ نے فرمایا:
’’میں نے اپنی زندگی اور اپنے رفتار و کردار میں غور و فکر کیا، اپنی عمر کو ختم ہونے اور اپنی دوسری منزل قبر کے بارے میں سوچا کہ آج میں اپنے بابا کے گھر سے آپ کے گھر منتقل ہوئی ہوں اور ایک دن یہاں سے اپنی لحد اور قبر کی طرف کوچ کروں گی۔ زندگی کے ان ابتدائی لمحات میں، آپ کو خدا کی قسم دیتی ہوں کہ آئیے نماز پڑھیں اور مل کر اس رات خدا کی عبادت کریں۔‘‘
حفظانِ صحت اور ہاتھوں کی صفائی
حدیث نمبر ۷: بعض اوقات بچے رات کا کھانا کھانے کے بعد ہاتھ دھوئے بغیر سوجاتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں موجود کھانے کی چکناہٹ اور دوسری چیزیں بچے کیلئے بیماری کا سبب بن سکتی ہیں۔ حفظانِ صحت کے اسی اصول کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حضرت فاطمہ ؑ فرماتی ہیں:
’’جو شخص غذا تناول کرنے کے بعد اپنے چکنے اور غذا میں ڈوبے ہوئے ہاتھوں کو دھوئے بغیر سوجائے تو اپنے سوا کسی اور کو ملامت نہ کرے۔‘‘
کھانے کے آداب
حدیث نمبر۸: ’’دسترخوان کے بارہ اہم اصول ہیں۔ لازم ہے کہ ہر مسلمان ان اصولوں کو جان لے۔ ان میں سے چار واجب، چار مستحب اور چار کا تعلق ادب سے ہے۔
* چار واجب اصول یہ ہیں:
۱۔ اللہ کی معرفت رکھنا۔ (یعنی یہ نعمتیں اللہ کی جانب سے ہیں)
۲۔ اللہ کی نعمتوں پر راضی ہونا۔
۳۔ کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا۔
۴۔ اللہ کا شکر ادا کرنا۔
* چار مستحب اصول یہ ہیں:
۱۔ ہر کھانے سے پہلے وضو کرنا۔
۲۔ بائیں جانب بیٹھنا۔
۳۔ بیٹھ کر کھانا کھانا۔
۴۔ تین انگلیوں سے کھانا
* وہ چار اصول جن کا تعلق ادب سے ہے:
۱۔ جو کچھ سامنے ہو، اس میں سے کھانا۔
۲۔ چھوٹے نوالے لینا۔
۳۔ کھانے کو اچھی طرح چبانا اور اچھی طرح نرم کر کے کھانا۔
۴۔ کھانا کھانے کے دوران کم سے کم دوسروں کے چہرے کی جانب دیکھنا۔‘‘
صحت و تندرستی
حدیث نمبر ۹: حضرت فاطمہ ؑ نے فرمایا:
’’مومن کیلئے بہترین تحفہ کھجور ہے۔‘‘
آخرت کے طویل سفر کا خوف
حدیث نمبر ۱۰: قیامت کا خوف اور توشہ آخرت کی تیاری ہمیشہ سے خاصانِ خدا کا وطیرہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول ؐ کے استفسار پر حضرت فاطمہ ؑ نے جواب دیا:
’’خدا کی قسم! میرا حزن و افسوس زیادہ، میری تہی دستی فراوان اور میرا تاسف بڑھ گیا ہے۔ (کہ سفر آخرت کے لئے تیاری کی ہے)۔‘‘
زندگی کی سختیوں کو برداشت کرنا
حدیث نمبر۱۱: ایک دن سید الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جنابِ فاطمہ ؑ سے دریافت فرمایا: پیاری بیٹی تم پریشان کیوں ہو؟ جنابِ فاطمہ ؑ نے فرمایا:
’’ہمارا حال یہی ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے پاس ایک ہی چادر ہے، اسی کو بچھا کر اس پر بیٹھ جاتے ہیں اور اسی کو اوڑھ لیتے ہیں۔‘‘
جنگ میں شرکت
حدیث نمبر۱۲: جنگِ خندق میں مدینہ منورہ دشمنوں کے محاصرے میں تھا، ہر شخص اپنی طاقت کے مطابق لشکرِ اسلام کی مدد کر رہا تھا۔ حضرت فاطمہ ؑ بھی روٹیاں پکا کر محاذِ جنگ کے مجاہدین کی ضروریات کو کسی حد تک پورا کر رہی تھیں۔ ایک مرتبہ بچوں کیلئے روٹیاں پکائیں لیکن پدرگرامی کے بغیر کھانا گوارا نہ ہوا تو محاذِ جنگ کے اگلے مورچوں پر اپنے والد گرامی کے پاس روٹیاں لے کر پہنچیں اور فرمایا:
’’یہ روٹیاں میں نے اپنے بچوں کیلئے پکائی تھیں لیکن میرے دل کو گواہ نہ ہوا تو اگلے مورچے پر آپ کی خدمت میں لے کر آئی ہوں۔‘‘
حجاب اور حضرت فاطمہ ؑ 
حدیث نمبر ۱۳: نامحرم سے پردہ۔ ایک نابینا شخص اجازت لے کر حضرت علی ؑ کے گھر میں داخل ہوا۔ رسولِ ؐ خدا نے دیکھا کہ فاطمہ ؑ فوراً کھڑی ہوئیں اور جلدی سے چادر سر پر ڈال لی۔ جنابِ رسول ؐ نے فرمایا: بیٹی یہ شخص نابینا ہے۔ حضرت فاطمہ ؑ نے جواب دیا:
’’اگرچہ وہ مجھے نہیں دیکھ سکتا لیکن میں تو اسے دیکھ رہی ہوں اور اگر وہ دیکھنے سے قاصر ہے لیکن ایک عورت کی بو کو تو سونگھ رہا ہے۔‘‘
محرم و نامحرم
حدیث نمبر ۱۴: دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ہماری پردہ دار خواتین بھی بعض اوقات حجاب کی پابندی نہیں کرتیں اور خاندان کے نامحرم رشتہ دار پیشگی اطلاع کے گھر میں داخل ہوجاتے ہیں لیکن سیرتِ حضرت فاطمہ ؑ یہ بتاتی ہے کہ نامحرم اپنے خاندان کا ہو یا غیر ہو، بڑا ہو یا چھوٹا، بینا ہو یا نابینا، وہ نامحرم ہے اور اس سے پردہ واجب ہے۔
چنانچہ ایک مرتبہ رسولؐ نے حضرت فاطمہ ؑ کے دروازے پر دستک دی اور فرمایا: اے اہلبیت ؑ ! تم پر سلام ہو، کیا میں داخل ہوجاؤں؟ حضرت فاطمہ ؑ نے جواب دیا: اے رسولؐ آپ پر بھی سلام ہو تشریف لے آئیے۔
رسولؐ نے فرمایا: کیا اس کے ساتھ آجاؤں جو میرے ہمراہ ہے؟
حضرت فاطمہ ؑ نے فرمایا: میرے سر پر چادر نہیں ہے۔ کچھ دیر میں ہی آپ نے حجاب کیا اور فرمایا:
’’اے خدا کے رسولؐ سلام ہو آپ پر، داخل ہوجائیے اس کے ساتھ جو آپ کے ہمراہ ہے۔‘‘
موت کے بعد بھی حجاب کا خیال
حدیث نمبر ۱۵: اسماء بنت عمیس نقل کرتی ہیں کہ حضرت فاطمہ ؑ کی حیات کے آخری ایام میں میں ان کے ساتھ تھی۔ ایک دن جنازہ اٹھنے کی کیفیت کے بارے میں گفتگو ہوئی تو پریشانی کے عالم میں فرمایا: کسی عورت کے جنازے کو ایک تختے پر لٹا کر مرد اور عورتیں اسے کس طرح اور کیسے اٹھاتے ہیں؟
حضرت فاطمہ ؑ دراصل حجاب اور عورت کی عظمت و عفت کا اظہار کرنا چاہتی ہیں کہ زندگی میں تو بہت سے لوگ پردہ کرلیتے ہیں لیکن میں وہ ہوں کہ جسے اپنی موت کے بعد بھی اپنے پردے اور نامحرم کے کندھوں پر جنازہ جانے کا خیال ہے۔ لہٰذا فرماتی ہیں:
’’میں اس بات کو بہت ہی قبیح سمجھتی ہوں کہ عورتوں کو مرنے کے بعد ایک تختے پر لٹا کر اس پر ایک چادر ڈال دی جائے۔ جس سے عورت کے جسم کا حجم پھر بھی دیکھنے والوں کی نظر میں آتا ہے۔ مجھے (کسی) ایسے تختے پر نہ لٹانا بلکہ میرے بدن کو چھپا دینا کہ خدا تجھے آتش جہنم سے چھپا لے۔‘‘
حضرت فاطمہ ؑ نے صرف اسی پر اکتفاء نہیں فرمایا بلکہ امیرالمومنین ؑ سے وصیت کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں آپ کو وصیت کرتی ہوں کہ میرے لئے ایسا تابوت بنائیے گا جس کی شکل ملائکہ نے مجھے دکھائی تھی۔‘‘
اسماء بنت عمیس کہتی ہیں کہ میں نے جب حجاب کے بارے میں حضرت فاطمہ ؑ کی یہ پریشانی دیکھی تو ان کی خدمت میں عرض کیا کہ سر زمینِ حبشہ میں جنازوں کو اٹھانے کیلئے ایسے تابوت بنائے جاتے ہیں کہ جو میت کے بدن کو اچھی طرح چھپا دیتے ہیں۔ اس کے بعد میں نے درخت کی نرم و نازک شاخوں کے ذریعے سے اس تابوت کی شکل بنائی تو حضرت فاطمہ ؑ بہت خوش ہوئیں اور فرمایا:
’’اے اسماء! میرے لئے بھی اسی تابوت جیسا گہوارہ بناؤ تاکہ میرا بدن (نامحرموں کی نظروں سے) چھپا رہے۔ خدا تمہیں آتشِ جہنم سے محفوظ رکھے۔‘‘
فاطمہ ؑ کی خواہش
حدیث نمبر ۱۶: رسولِؐ خدا نے ایک دن اپنی پیاری بیٹی جنابِ فاطمہ ؑ سے دریافت کیا: خدا سے کچھ مانگنا ہے تو مانگ لو۔ اس وقت میرے پاس فرشتہ موجود ہے جو خدا کی جانب سے پیغام لے کر آیا ہے کہ تم جو چاہوگی خدا اسے پورا کردے گا۔ حضرت فاطمہ ؑ نے جواب دیا: ’’خداوندِ عالم کی بارگاہ میں حاضری کی لذت نے مجھے خدا سے ہر قسم کے سوال اور خواہش سے روک دیا ہے۔ میرے دل میں اس کے سوا کوئی اور حاجت نہیں ہے کہ مجھے خدا کے رخِ زیبا کا دیدار نصیب ہوتا ہے۔‘‘
حضرت فاطمہ ؑ کی مہمان نوازی
حدیث نمبر ۱۷: مدینہ کی مسجد میں ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا: اے مسلمانو! میں بھوک سے پریشان ہوں، کوئی مجھے مہمان بنائے۔ رسولؐ نے کہا: آج کی شب اس شخص کو کون اپنا مہمان بنائے گا؟ حضرت علی ؑ نے فرمایا: رسولؐ اللہ میں اسے اپنا مہمان بناؤں گا۔ حضرت علی ؑ نے گھر میں داخل ہونے کے بعد حضرت فاطمہ ؑ سے سوال کیا کہ گھر میں کھانا ہے؟ حضرت فاطمہ ؑ نے جواب دیا: ’’گھر میں چھوٹی بچی کی غذا کے علاوہ کچھ نہیں ہے لیکن ہم آج کی رات یہی کھانا مہمان کو کھلا کر ایثار کریں گے۔‘‘
بی بی فاطمہ ؑ کا ایثار
حدیث نمبر۱۸: ایک نو مسلم عرب نے مدینہ کی مسجد میں لوگوں سے مدد کی درخواست کی۔ رسول اکرم ؐ نے اپنے اصحاب کی طرف دیکھا کہ کون اس کی حاجت روائی کیلئے قدم بڑھاتا ہے۔ حضرت سلمان فارسیؓ اٹھے اور اس کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے مسجد سے باہر نکل گئے۔ وہ جہاں بھی گئے ناکام ہی لوٹے۔ مایوسی کی حالت میں مسجد کی طرف لوٹ رہے تھے کہ اچانک ان کی نظریں منزلِ فاطمہ ؑ پر پڑیں تو اپنے دل میں کہنے لگے: حضرت فاطمہ ؑ کا گھر نیکیوں کا سرچشمہ ہے۔ دستک دے کر اس ضرورت مند کی داستان سنائی تو حضرت فاطمہ ؑ نے کہا:
’’اے سلمان! اس خدا کی قسم جس نے حضرت محمد ؐ کو برحق نبوت کے لئے مبعوث کیا، تین روز گزر گئے ہیں کہ ہم (اہلبیتؑ ) نے کچھ نہیں کھایا۔ حسن ؑ و حسین ؑ بھوک کی شدت سے بے قرار ہو کر کروٹیں بدل رہے تھے اور اب نڈھال ہو کر سوگئے ہیں لیکن میں اس نیکی کو جس نے میرے دروازے پر دستک دی ہے، مسترد نہیں کروں گی۔‘‘
اخلاص فی سبیل اللہ
حدیث نمبر ۱۹: ایک مرتبہ حضرت سلمان فارسیؓ نے جناب فاطمہ ؑ کے پاس کسی مسلمان کی ضرورت کی غرض سے حاضر ہوئے۔ آپ کے بچوں کیلئے بھی گھر میں کھانا نہ تھا۔ لیکن پھر آپ ؑ نے اپنا ایک لباس حضرت سلمان فارسیؓ کو دیا تاکہ وہ اسے یہودی دکاندار شمعون کے پاس گروی رکھوا کر جو اور کھجور بطورِ قرض لے سکے۔ حضرت سلمان فارسیؓ کا کہنا ہے کہ جو اور کھجور لے کر میں حضرت فاطمہ ؑ کے دروازے پر آیا اور عرض کیا: اے دخترِ رسول ؐ اس غذا میں سے تھوڑی سی مقدار اپنے بھوک سے نڈھال بچوں کیلئے نکال لیجئے۔
حضرت فاطمہ ؑ نے جواب دیا:
’’اے سلمان! ہم نے یہ کام صرف اللہ کیلئے انجام دیا ہے اور ہم اس میں سے ہرگز کوئی چیز نہیں لیں گے۔‘‘
ہمسایوں کیلئے دعا
حدیث نمبر ۲۰: امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ مادرِ گرامی ہمیشہ ہمسایوں، دینی بھائیوں اور مسلمانوں کیلئے دعا کرتے ہیں۔ انہوں نے جناب فاطمہ ؑ سے عرض کیا: مادرِ گرامی آپ خود اپنے لئے دعا کیوں نہیں کرتیں؟ بی بی نے فرمایا: ’’بیٹا! پہلے ہمسائے اس کے بعد اپنا گھر (اور گھر والے)۔‘‘
شہزادئ کونین حضرت فاطمہ زہرا ؑ اپنے سفرِ آخرت پر کس سکون و اطمینان کے ساتھ روانہ ہوئیں اس کا اندازہ ان روایات سے ہوتا ہے جو مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کی مستند کتابوں میں موجود ہے اور جن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ:
’’شہزادی کونین ؑ نے اپنی رحلت سے کچھ دیر قبل جنابِ اسماء بنت عمیس سے پاک و پاکیزہ لباس منگوایا اور جس طرح ہمیشہ نماز سے قبل خوشبو لگاتی تھیں خوشبو منگوائی، مصلائے عبادت پر تشریف لے گئیں خالق کی عبادت میں مصروف ہوئیں۔ اسماء بنت عمیس سے فرمایا: ابھی نماز کا وقت شروع ہونے میں کچھ دیر ہے کچھ استراحت کرنا چاہتی ہوں، نماز کے وقت مجھے آواز دینا اگر کوئی جواب نہ ملے تو امیرالمومنین ؑ کو اطلاع دے دینا (کہ دختر رسولؐ دنیا سے تشریف لے گئیں۔)‘‘
چنانچہ ’’عوالم‘‘ کی روایت ہے کہ شہزادی کونین ؑ نے جنابِ اسماء بنت عمیس سے فرمایا کہ:
’’وہ خوشبو لے آؤ جو میں استعمال کرتی ہوں اور وہ لباس لے آؤ جس میں میں نماز ادا کرتی ہوں اور میرے قریب ہی بیٹھ جاؤ۔ جب نماز کا وقت آئے تو مجھے اٹھا دینا۔ اگر میں اٹھ گئی (تو ٹھیک ہے) ورنہ (امیرالمومنین ) علی ؑ کو اطلاع دے دینا (کہ دخترِ رسولؐ دنیا سے رخصت ہوگئیں۔)‘‘
کس قدر عظیم الشان سفر آخرت تھا نماز کی تیاری کی، عبادت کیلئے مخصوص لباس منگوایا (چونکہ حضورِ اکرم ؐ نے نماز سے قبل خوشبو لگانا مستحب قرار دیا ہے) شہزادئ کونین ؑ نے خوشبو منگوائی اور خالق کی بارگاہ میں سربسجود ہونے کی پوری تیاری کرنے کے بعد داعی اجل کو لبیک کہی۔
بعض مورخین کا بیان ہے کہ:
’’شہزادی کونین ؑ نے جنابِ اسماء بنتِ عمیس سے فرمایا کہ میں حجرے کے اندر جاتی ہوں جب تک میری تسبیح کی آواز سنتی رہو سمجھنا کہ میں اس دنیا کے اندر موجود ہوں لیکن اگر تسبیح کی آواز آنا بند ہوجائے تو سمجھ لینا کہ رسول ؐ کی بیٹی اپنے باپ کے پاس پہنچ گئی۔‘‘
جنازے کے بارے میں شہزادی کا فرمان
جنابِ اسماء بنت عمیس سے منقول ہے وہ کہتی ہیں کہ:
’’شہزادئ کونین ؑ کی زندگی کے آخری دنوں میں میں ان کے ساتھ ہی رہا کرتی تھی۔ ایک دن آپ نے تشیعِ جنازہ کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ عورتوں کے جنازے کو ایک تختے کے اوپر رکھ کر مردوں سے کیوں (اس طرح) اٹھواتے ہیں؟ ( کہ جسم کی ساخت محسوس کر لی جائے، یہ طریقِ کار مجھے پسند نہیں ہے) پھر فرمایا:
عورتوں کے (جنازے) کے ساتھ جو انداز اختیار کیا جاتا ہے وہ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ (جسم کے) اوپر کپڑا ڈال کر میت کو اٹھالیا جاتا ہے جس سے دیکھنے والوں کو اس کے قد و قامت وغیرہ کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اے اسماء جب میں دنیا سے رخصت ہوجاؤں تو کسی (ایسے) ظاہری تختے پر (میرا جنازہ) نہ اٹھانا، بلکہ میرے جسم کو اچھی طرح سے مخفی رکھنا خداوندِ عالم تمہیں آتشِ جہنم سے محفوظ رکھے، کہ تم نے میرے جنازے کی حرمت اور حفاظت کا خیال رکھا۔‘‘
پھر آپ ؑ نے امیرالمومنین ؑ سے فرمایا:
’’اے امیرالمومنین ؑ میں آپ کو وصیت کرتی ہوں کہ میرا (جنازہ اٹھانے کے لئے ایک خاص) تابوت میرے لئے بنوائیے گا میں نے فرشتوں کو دیکھا ہے کہ انہوں نے (ایک تابوت) بنا کر مجھے دکھایا ہے۔‘‘
جناب اسماء کہتی ہیں کہ:
پھر شہزادی کونین ؑ کی پسند کے مطابق میں نے نرم و نازک ٹہنیوں کے ذریعے سے ایک تابوت بنایا اور آپ ؑ کو دکھایا کہ حبشہ کی سرزمین پر جنازہ اٹھانے کے لئے ایسا ہی تابوت بناتے ہیں جس میں میت کو رکھا جائے تو کسی شخص کو میت کے جسد کے بارے میں کچھ اندازہ نہیں ہوتا، جسے دیکھ کر شہزادی کونین ؑ بہت خوش ہوئیں اور فرمایا کہ:
’’میرے لئے بھی ایسا ہی تابوت بنانا، میرے جسم کو اچھی طرح چھپانا خداوندِ عالم تمہیں آتشِ جہنم سے بچائے۔‘‘
ان فقروں کو بار بار پڑھئے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ شہزادی کونین ؑ کو اس بات کی کتنی فکر تھی کہ ان کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد جب ان کا جنازہ اٹھایا جائے تو جن لوگوں کو بھی نگاہ جنازے کے تابوت پر پڑے انہیں اندازہ نہ ہوسکے کہ اس تابوت کے اندر جو میت رکھی ہے اس کا قد و قامت وغیرہ کیسا ہے بلکہ کمالِ پوشیدگی کے ساتھ میت کو لے جایا جائے۔
الحمد للہ ہماری قوم و ملت کے درمیان کسی بھی میت کو اٹھانے کیلئے جو تابوت رائج ہے وہ ہو بہو اسی تابوت کے انداز کا ہے جیسا شہزادئ کونین ؑ نے اپنے لئے بنوایا تھا اور جسے دیکھ کر آپ نے اسماء بنتِ عمیس کو دعائے خیر دی تھی۔
دفن کے بارے میں وصیت
شہزادی کونین ؑ نے اپنی رحلت سے قبل ہی جنابِ امیرالمومنین ؑ سے وصیت فرمادی تھی کہ وہی آپ کے غسل و کفن دیں، نمازِ جنازہ پڑھیں رات کے وقت آپ ؑ کو سپردِ لحد فرمائیں اور آپ ؑ کی قبر مبارک کے پاس دیر تک تلاوتِ قرآن کریں۔
چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ جنابِ سیدہ ؑ نے حضرت امیرالمومنین ؑ سے یہ وصیت فرمائی کہ:
’’جب میں رحلت کر جاؤں تو آپ ہی مجھے غسل دیجئے گا کفن پہنچائیے گا، مجھ پر نماز پڑھئے گا، مجھے قبر میں اتار دیجئے گا، لحد کے اندر مجھے لٹائیے گا (پھر قبر کو بند کرنے کے بعد) اس پر مٹی ڈالئے گا اور میرے سرہانے بیٹھ کر میرے طرف رُخ کر کے زیادہ سے زیادہ تلاوتِ قرآن کیجئے گا اور دعا پڑھئے گا۔‘‘ (بحارالانوار، بیت الاحزان اور مصباح الانوار)
نیز آپ ؑ نے یہ بھی وصیت فرما دی تھی کہ سوائے چند مخلص صاحبانِ ایمان کے سوا کسی کو آپ ؑ کے جنازے کی اطلاع نہ دی جائے اور جن لوگوں نے آپ ؑ کو اذیت پہنچائی ہے انہیں نمازِ جنازہ پڑھنے کی اجازت نہ دی جائے۔ چنانچہ ابوبصیر نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ شہزادی کونین ؑ نے جنابِ امیرالمومنین ؑ سے وصیت فرمائی کہ:
’’میری وفات کی ام سلمہ، ام ایمن، فضہ اور مردوں میں میرے بیٹوں اور (پیغمبر اکرم ؐ کے چچا جناب) عباس، سلمان فارسی، عمار، مقداد، ابوذر اور حذیفہ کے علاوہ کسی کو خبر نہ دیجئے گا مجھے رات کے وقت دفن کیجئے گا اور لوگوں کو میری قبر کی نشاندہی نہ فرمائیے گا۔‘‘
نیز یہ بھی فرمایا کہ:
’’آپ ؑ سے میری وصیت ہے کہ یہ۔۔۔ جن لوگوں نے مجھ پر ظلم کیا اور میرا حق چھینا ان میں سے کوئی میرے جنازے پر نہ آئے، کیونکہ یہ لوگ میرے بھی دشمن ہیں اور رسولؐ کے بھی دشمن ہیں۔ ان لوگوں میں سے یا ان کے پیروکاروں میں سے کسی ایک کو میری نمازِ جنازہ نہ پڑھنے دیجئے گا اور رات کے وقت جب اندھیرا چھا جائے اور لوگ سوجائیں تب مجھے دفن کیجئے گا۔‘‘
مذکورہ بالا وصیت کے ایک ایک فقرے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شہزادی کونین ؑ کو ان لوگوں نے کس قدر رنجیدہ کیا تھا اور ان لوگوں کے ظلم و ستم کا آپ کے دل پر کتنا گہرا اثر تھا۔
قبرِ مبارک کی زیارت
ملتِ جعفریہ کے افراد کو آئمہ طاہرین ؑ ، ہادیانِ برحق اور خاصانِ خدا کے مزار مبارک پر حاضری دینے اور ان مقدس مقامات کی زیارت کا جو شوق ہے وہ ظالم حکمرانوں کی چیرہ دستیوں اور زیادتیوں پر قدغن عائد کرنے سے کبھی کم نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ان زیارتوں کا حکم بھی ان ہی ہادیانِ برحق نے دیا ہے جن کی محبت ہماری زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہے اور جن کی اطاعت ہمارے لئے دنیا میں وسعت اور آخرت میں نجات کا ذریعہ ہے۔
خود سرکارِ ختمی مرتبت احمدِ مجتبیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے زیارت قبور کے سلسلے میں جو ہدایات فرمائی ہیں ان سے ہماری اور بردارانِ اسلامی کی متعدد معتبر کتابوں کے ذخائر لبریز ہیں۔ اور شہزادی کونین ؑ حضرت فاطمہ ؑ نے تو خود جنابِ امیرالمومنین حضرت علی ؑ سے اپنی وصیتوں میں یہ فرمائش کی تھی کہ یاعلی ؑ میرے دنیا سے جانے کے بعد آپ میری زیارت کیلئے میری قبر پر آیا کیجئے گا۔ چنانچہ روایت کا فقرہ ہے کہ جب جنابِ سیدہ ؑ کی رحلت کا وقت نزدیک آیا تو آپ نے امیرالمومنین ؑ سے وصیت کرتے ہوئے یہ بھی ارشاد فرمایا تھا کہ:
’’اے ابوالحسن ؑ (حضرت علی ؑ ) اب (صورتحال یہ ہے کہ) زندگی کے چند لمحات ہی باقی رہ گئے ہیں اور اس دنیا سے رخصت ہونے اور آپ لوگوں کو الوداع کہنے کا وقت نزدیک آچکا ہے۔ لہٰذا میری (یہ آخری) گفتگو سماعت فرما لیجئے۔ جس کے بعد آپ دختر رسول ؐ کی یہ آواز نہ سن سکیں گے۔ اے ابوالحسن ؑ میں آپ کو وصیت کرتی ہوں کہ آپ مجھے یاد کرتے رہا کیجئے گا اور میری وفات کے بعد میری قبر پر آکر زیارت کیا کیجئے گا۔‘‘ (زہرۃ الریاض کو کب الدری، جلد۱)
ایک طرف شہزادی کونین ؑ کی یہ وصیت اور دوسری طرف دنیا کے ظالم حکمرانوں کا یہ طرزِ عمل کہ ساری دنیا کے محل آباد ہیں مگر مدینہ میں شہزادی کونین ؑ اور ان کی اولاد کے گھر اُجڑے ہوئے ہیں۔ آج اگر کوئی شخص نجف اشرف، کربلائے معلی، کاظمین، سامرا، مشہد مقدس، قم یا دمشق جاتا ہے تو اسے اپنے ہادیانِ برحق اور خاصانِ خدا اکے مزارات پر رونق بھی نظر آتی ہے تو اُسے طواف و زیارت کرنے والوں کا ہجوم بھی۔ لیکن یہی زائر جب جنت البقیع کے دروازے پر قدم رکھتا ہے تو رنج و الم سے اس کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہونے لگتا ہے اور فضائے عالم میں واحسر تاکی آواز گونجتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
امیرالمومنین ؑ کا مرثیہ
شہزادی کونین حضرت فاطمہ ؑ کی رحلت پر حضرت امیرالمومنین ؑ نے متعدد مرثیے کہے ہیں جو بحارالانوار اور دوسری کتابوں کے اندر موجود ہیں جن میں آپ ؑ نے فرمایا ہے کہ:
’’دخترِ رسولؐ میرے لئے ایسا مرکز محبت تھیں جس کا کوئی بدل نہیں ہے اور نہ ان کے علاوہ میرے دل میں 
کسی کی جگہ ہے۔ وہ میری نگاہوں سے تو دور ہوچکی ہیں لیکن میرے دل سے کبھی جدا نہیں ہوسکتی ہیں۔‘‘


’’اور تمہارا سب کا دین ایک دین ہے اور میں ہی سب کا پروردگار ہوں لہٰذا سب مجھ سے ڈرو۔ پھر یہ لوگ آپس میں ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اور ہر گروہ جو کچھ بھی اس کے پاس ہے اس میں خوش اور مگن ہے۔‘‘ (سورۂ مومنون۲۳، آیت ۵۲، ۵۳)
قرآن کریم کی بکثرت آیات مختلف پیرائے، بیان اور خوبصورت و دل نشین انداز میں، کہیں حکایات و قصوں کے ذریعہ گذشتہ اُمتوں کی سرگزشت بیان کرتے ہوئے، تو کہیں مسلمانوں کو ترغیب و تحریص دلاتے ہوئے اور کسی مقام پر اہلِ ایمان کو تنبیہہ کرتے ہوئے وحدتِ کلمہ اور اتحاد و اتفاق کی دعوت دیتی ہیں اور انتشار و افتراق کے خطرناک اور ناپسندیدہ آثار و نتائج سے خبردار کرتی ہیں۔
ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ:
’’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘ (سورۂ آل عمران۳ آیت ۱۰۳)
دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے۔
’’اور آپس میں اختلاف نہ کرو کہ کمزور پڑجاؤ گے اور تمہاری ہوا بگڑ جائے گی۔‘‘ (سورۂ انفال ۸ آیت نمبر ۴۶)
ایک اور مقام پر گذشتہ اُمتوں کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہ کس طرح وہ باہمی اختلافات کے نتیجے میں انحراف و بدبختی کا شکار ہوئیں اور انتشار و افتراق اور ایک دوسرے سے بے گانگی کی بناء پر انہیں کس قدر تلخ نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ قرآن کریم مسلمانوں کو یوں خبردار کرتا ہے کہ:
’’بے شک یہ تمہارا دین ایک ہی دین اسلام ہے اور میں تم سب کا پروردگار ہوں لہٰذا میری ہی عبادت کرو اور ان لوگوں نے تو اپنے دین کو بھی آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لیا ہے حالانکہ یہ سب پلٹ کر ہماری ہی بارگاہ میں آنے والے ہیں۔‘‘ (سورۂ انبیاء ۲۱ آیت ۹۲۔۹۳)
سورۂ انبیاء کی آیت پیغمبرانِ الہٰی کی مسلسل دعوت اور اس تذکرے کے بعد کہ کس طرح ان میں سے ہر ایک نے اپنی اُمت کو توحیدی دعوت دی اور اس راہ میں مخالفین کی پیدا کی جانے والی شدید مشکلات کو صبر و تحمل سے برداشت کیا، یہ بتاتی ہے کہ بجائے اس کے کہ ان کی اُمتیں اور ان کے پیروکار ان کی بتائی ہوئی راہ کو اپناتے اور ان کی ہدایت کے مطابق عمل کرتے جو دنیا اور آخرت میں ان کی فلاح و نجات کا ضامن تھیں اور بجائے اس کے کہ خداوندِ عالم کی اس ندا پر لبیک کہتے کہ ’’یہ راہ و روش اور یہ دین و آئین ایک سے زیادہ نہیں اور یہ خداوندِ عالم کی جانب سے معین کردہ اور صرف میں ہی تمہارا پروردگار ہوں صرف میری ہی پرستش کرو۔‘‘ آپس میں انتشارو افتراق و پراکندگی سے دوچار ہوگئے۔
یہ اختلاف انہیں اس حد تک انحراف کی راہ پر لے گیا کہ انہوں نے اپنے لئے نئے نئے معبود ایجاد کر لئے اور دین الہٰی کو چھوڑ کر اپنے خود ساختہ مذاہب کی پیروی کرنے لگے اور یوں ان کی اجتماعی زندگی باہمی بغض و عناد، عداوت و دشمنی کا شکار ہوگئی۔ عقیدہ و فکر میں انحراف رونما ہوگیا اور آخرت تباہ ہوگئی۔ ’’فتقطعوا امرھم بینھم و کل الینا راجعون۔‘‘
اسی آیت کی مانند ایک دوسرے آیت سورۂ مومنون میں ہے کہ جس کے آخر میں خداوندِ عالم فرماتا ہے کہ:
’’فتقطعوا امرھم بینھم زبرا کل حزب بمالدیھم فرحون۔‘‘ (سورۂ مومنون ۲۳، آیت ۵۳)
’’پھر یہ لوگ آپس میں ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اور ہر گروہ جو کچھ بھی اس کے پاس ہے اسی پر یہ خوش اور مگن ہے۔‘‘
یہ دو آیات جو خداوندِ عالم نے حکایات اور سابقہ اُمتوں کی سرگزشت کی صورت میں نازل فرمائیں، مسلمانوں کو خبردار کرتی ہیں کہ مباد اختلاف و انتشار کے نتیجے میں انہیں بھی یہ دن دیکھنے پڑیں اور قابلِ برداشت مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑے اور ان کا ہر گروہ اور ہر فرقہ اپنے خود ساختہ آئین و شریعت پر تکیہ کئے بیٹھا رہے اور دشمن کی سازشیں اور منصوبے انہیں ذلت و نابودی کے گہرے گڑہے کی جانب دھکیل دیں۔
ائمہ اہل بیت ؑ کہ جو خود منادیانِ توحید، نگہبانِ وحی، قرآن و سنت کے محافظ اور بقول رسول مقبولؐ ثقلین میں سے ایک ثقل اور پیغمبر اسلام ؐ کی امانت ہیں۔ (’’میں تم میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، کتاب خدا اور میرے اہل بیت ؑ ، یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچیں۔‘‘) آپ حضراتِ اہل بیت ؑ ہی مفاہیمِ قرآن اور آیاتِ الہٰی کے مصادیق کے سب سے بڑے عالم، اسلامی شریعت کے نفاذ کے سب سے بڑے مدعی اور اپنی ہستی کو اسلام اور قرآن کی راہ میں فدا کرنے والے ہیں۔
مسلمہ طور پر آپ ؑ ہی وہ ہستیاں ہیں جن کے لئے مسلمانوں کے انتشار و افتراق کے نحس اور خطرناک نتائج سب سے زیادہ تکلیف دہ تھے۔ اس کے باوجود کہ آپ ؑ میں سے اکثر تحریر و تقریر کی آزادی سے محروم رہے، اسلامی سماج سے آپ کا رابطہ منقطع کر دیا گیا اور ان کے عقائد و افکار کے اظہار پر پابندی رہی لیکن پھر بھی آپ ؑ کے کلمات، خطبات، دعاؤں، نصائح اور مواعظ میں اتحاد کے قیام اور انتشار و افتراق سے پرہیز کی تاکید پر مشتمل مطالب ملتے ہیں۔
گو ان گوہر بارکلمات کے بیان کو صدیاں گزر چکی ہیں لیکن آج جبکہ اسلام اور کفر کی پیکار نے ایک نئی صورت اور کڑی شدت اختیار کر لی ہے اور مسلم ممالک میں استعماری ریشہ دوانیاں اپنے عروج کو پہنچ چکی ہیں، یہ رفیع الشان کلمات انتہائی قدروقیمت کے حامل ہیں۔
اس مضمون میں ہم مسلمانوں کے باہمی اتحاد و اتفاق کے بارے میں ائمہ ہدی ؑ کے چند بیانات کو بطور مثال پیش کر رہے ہیں جو معتبر اور مستند منابع و مصادر (Sources) میں مذکور ہیں اور اُمید رکھتے ہیں کہ علماء و دانشور حضرات اس سلسلے میں مفصل تحریریں بردارانِ اسلام کی خدمت میں پیش کریں گے۔
اتحاد، امیرالمومنین حضرت علی ؑ کی نظر میں
امیرالمومنین حضرت علی ؑ ابن ابی طالب ؑ نے ’’قاصعہ‘‘ کے نام سے ایک طویل خطبہ ارشاد فرمایا جو نہج البلاغہ کے اہم ترین خطبات میں سے ہے۔
اس خطبہ کے ایک حصہ میں جناب امیرالمومنین ؑ نے وحدتِ کلمہ اور اتحاد کے اہم و حساس موضوع پر گفتگو فرمائی اور اسے گذشتہ اُمتوں کی مجدو عظمت کا راز قرار دیا اور ساتھ ہی اختلاف و انتشار کو ان اُمتوں کی بدبختی اور پسماندگی کی اہم ترین وجہ قرار دیا اور مسلمانوں اور اپنے ماننے والوں کو ان اممِ گذشتہ کی سرگزشت کی جانب متوجہ کرتے ہوئے اور ان کی داستان کو آئندہ نسلوں کے لئے عبرت و نصیحت کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے یوں فرمایا کہ:
’’۔۔۔ان عذابوں سے خوف کھاؤ۔ جو تم سے پہلی اُمتوں پر ان کی بداعمالیوں اور بدکردارویوں کی وجہ سے نازل ہوئے اور اپنے اچھے اور بُرے حالات کے دوران ان اُمتوں کے احوال و واردات کو پیش نظر رکھو اور اس بات سے ڈرتے رہو کہ کہیں تم بھی انہی کے جیسے نہ ہوجاؤ۔ ان کی دونوں (اچھی اور بُری) حالتوں پر غور و فکر کرو، ان خوبیوں کو جو ان کی عزت و سربلندی کا سبب بنیں، اختیار کرو اور ان برائیوں سے جو ان کی ذلت کی وجہ بنیں، پرہیزکرو۔‘‘
’’ہر اس چیز کی پابندی کرو جس کی وجہ سے عزت و برتری ہر حال میں ان کا نصیب بنی اور دشمن ان سے دور رہے اور سکون و آسودگی نے ان پر سایہ کرلیا۔ نعمتیں سرنگوں ہو کر ان کے ساتھ ہولیں اور عزت و سرفرازی نے ان سے اپنا ایندھن جوڑ لیا۔ (اور وہ چیزیں یہ تھیں کہ) انہوں نے اپنے اندر اختلاف کو راہ نہ دی اور اتحاد و یک جہتی پر قائم رہے۔ اسی پر ایک دوسرے کو اُبھارتے تھے اور اسی کی باہم تاکید کرتے تھے۔ تم ہر اس چیز سے دور رہو جس نے ان کی کمر توڑ ڈالی اور ان کی طاقت و قوت کو ضعف و کمزوری میں بدل دیا۔ (اور وہ چیز یہ تھی کہ) انہوں نے دلوں میں کینہ اور سینوں میں بغض رکھا اور ایک دوسرے کی مدد سے پیٹھ پھیرلی اور باہمی تعاون سے ہاتھ اُٹھالیا۔۔۔
غور کرو کہ جب ان کی جماعتیں یکجا، خیالات یک سو اور دل یکساں تھے اور ان کے ہاتھ ایک دوسرے کو سہارا دینے والے اور تلواریں ایک دوسرے کی مددگار تھیں۔ ان کی گناہیں تیز اور ارادے ایک تھے۔ کیا یہ اتحاد ہی نہ تھا جس کے بل بوتے پر وہ زمین پر فرمانروا اور دنیا والوں پر حکمران تھے؟
تصویر کا یہ رُخ بھی دیکھو کہ جب ان میں پھوٹ پڑگئی، یک جہتی درہم برہم ہوگئی، ان کی باہمی مہرو محبت دشمنی اور عداوت میں بدل گئی، ان کے نعرے جدا جدا ہوگئے، وہ مختلف ٹولیوں میں بٹ کر ایک دوسرے سے برسرپیکار ہوگئے۔ تو خداوندِ عالم نے اس اختلاف و نفاق کی وجہ سے ان کے جسموں سے عزت و عظمت کا لباس اُتار لیا اور ان کے حالات آئندہ نسلوں کے لئے سامانِ عبرت بن گئے۔
اسماعیل ؑ کی اولاد، اسحاق ؑ کے فرزندوں اور یعقوب ؑ کے بیٹوں کے حالات سے عبرت حاصل کرو۔ ان کے حالات آج کے حالات سے کس قدر مشابہ ہیں اور طور طریقے کتنے یکساں ہیں۔ ان کے انتشار اور پراکندگی کی صورت میں جو واقعات رونما ہوئے ان میں فکر و تامل کرو کہ جب شاہانِ عجم اور سلاطین روم ان پر حکمران تھے تو وہ انہیں ان کی آبادیوں، دجلہ و فرات کے پانیوں اور سبزہ زاروں سے باہر نکال کر خاردار جھاڑیوں، گرم ہواؤں کے جھکڑوں کی بے روک گزرگاہوں اور معیشت کی دشواریوں کی طرف دھکیل دیتے تھے اور آخر انہیں فقیر و نادار، زخمی پیٹھ والے اونٹوں کا چرواہا اور بالوں کی جھونپڑیوں کا باشندہ بنا کر چھوڑ دیا گیا تھا۔
وہ اپنے گھروں اور معیارِ زندگی کے لحاظ سے بدبخت ترین اقوام تھے، نہ ان کے سروں پر کسی پیغمبر کی دعوت کا سایہ تھا جس کی پناہ میں آجائیں اور نہ باہمی اُلفت و محبت کی چھاؤں تھی جس کے نیچے آرام کرسکیں۔ ان کے حالات پراکندہ، قوتیں متصادم اور کثرت و جمعیت بٹی ہوئی تھی۔ جاں گداز مصیبتوں اور جہل کی تاریکیوں میں پڑے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے، بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ قوم و قبیلے سے رشت�ۂ قرابت توڑ چکے تھے اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا۔
دیکھو! کہ اللہ نے ان پر کیسا عظیم احسان کیا کہ ان میں اپنا رسولؐ بھیجا جس کی ہدایت اثر سے یہ اس کے مطیع ہوگئے۔ اس کی لائی ہوئی شریعت کی پیروی کرنے لگے۔ اس نے انہیں ایک مرکز پر جمع کر دیا، ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے مہر و اُلفت پیدا کردی اور کیوں کر خوشحالی اور آسودگی نے اپنے بال و پر ان پر پھیلا دئیے اور ان کے لئے فیض و بخشش کی نہریں بہا دیں اور شریعت نے انہیں اپنی برکت کے بے بہا فائدوں میں لپیٹ لیا۔
چنانچہ وہ قانونِ الہٰی کی نعمتوں میں شرابور ہوگئے، اسلام کے زیر سایہ ان کی زندگی کے تمام شعبے منظم ہوگئے اور انہیں غلبہ و بزرگی کے نزدیک لاکھڑا کیا۔ اسلامی حکومت کے زیر سایہ ان کی تمام مشکلات رفع ہوگئیں اور رکاوٹوں کو دور کر کے تمام عالم پر حکمراں ہوگئے۔ ان لوگوں پر حاکم بن گئے ایک روز جوان پر حکمراں تھے اور ان کے فرمانروا ہوگئے ایک روز جن کے تحتِ فرمان تھے۔ اب نہ وہ نیزوں کی زد پر رہتے تھے اور نہ ان پر پتھر پھینکتے جاتے تھے۔‘‘(نہج البلاغہ خطبہ نمبر۱۹۰)
ط۔تازہ مچھلی
امام رضا علیہ السلام:جو کوئی درد شقیقہ(آدھے سر کا درد) اور پیٹ کے درد سے ڈرتا ہے،تو اسے چاہیے کہ سردی اور گرمی میں تازہ مچھلی کھانا ہر گز نہ چھوڑے۔
جو چیزیں پیدائشی دیوانگی کا باعث ہیں
امام رضا علیہ السلام:ایک نزدیکی کے بعد دوسری نزدیکی جبکہ درمیان میں غسل نہ ہو بچے کی دیوانگی کا سبب ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم:مرد کے لئے مکروہ ہے کہ احتلام کے بعد عورت سے نزدیکی کرے مگر یہ کہ احتلام کے بعد غسل کرلے اور اگر غسل کے بغیر نزدیکی کرے تو بچہ پیدائشی دیوانہ ہوگا پھر اپنے علاوہ کسی کو ملامت نہ کرے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم:حضرت علی علیہ السلام کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے علی علیہ السلام:مہینے کے آغاز میں،درمیان میں اور آخر میں اپنی بیوی سے نزدیکی نہ کرنا کیونکہ اس صورت میں دیوانگی،کوڑھ اور پاگل پن تمہاری بیوی اور بچے میں سرائیت کر جائے گی۔
جو چیزیں دیوانگی سے بچاتی ہیں
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم:حضرت علی علیہ السلام کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:اے علی علیہ السلام!کھانے کا آغاز اور اختتام نمک سے کرو، کیونکہ جو کوئی اپنے کھانے کا آغاز اور اختتام نمک سے کرتا ہے وہ بہّتر طرح کی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے جن میں دیوانگی، کوڑھ اور برص وغیرہ شامل ہیں۔
نرگس کے پھول سونگھنا
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلٖ وسلم: نرگس کے پھول کو سونگھا کرو،اگرچہ دن میں ایک بار ہی سہی،حتیٰ ہفتے میں ایک بار،حتیٰ مہینے میں ایک بار،حتیٰ سال میں ایک بار،حتیٰ اپنی ساری عمر میں ایک بار،کیونکہ دل میں دیوانگی،کوڑھ اور برص کا ایک بیج ہوتا ہے اور وہ نرگس کے پھول کو سونگھنے سے ختم ہوجاتا ہے۔
ج۔ہر جمعہ کو مونچھیں اور ناخن تراشنا
ہر جمعہ کو تھوڑی سی مونچھیں اور ناخن چھوٹے کرلیا کرو،اگرچہ بہت کم بڑھے ہوں پھر بھی انہیں ہلکا سا تراش لیا کرو کیونکہ اس طرح دیوانگی،کوڑھ اور برص سے محفوظ رہوگے۔
د۔بچوں کے منہ سے رال ٹپکنا
امام صادق علیہ السلام:خدا وند عالم نے انسان کو جو نعمتیں دی ہیں ان کے بارے میں فرمایا: رال جو بچوّں کے منہ سے بہتی ہے وہ ان رطوبتوں کے جسم سے خارج ہونے کا سبب بنتی ہے جو اگر جسم میں رہ جاتیں تو شدید نقصان دہ ہوتیں،جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ بعض بچوں کی بہت زیادہ رال ٹپکتی ہے اور اسی وجہ سے وہ کند ذہنی،دیوانگی اور حماقت اور دوسری بیماریوں سے جیسے جسم میں سستی اور لقوہ اور اسی طرح کی مختلف بیماریوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں اس طرح خدا وند عالم نے بچپن ہی میں انسان کے صحت اور تندرستی کے ساتھ بڑے ہونے کا انتظام کردیا اور انسان پر اس چیز سے احسا ن کیا جس کے بارے میں وہ نادان تھا اور جس چیز کو انسان پہچاننے اور سمجھنے سے قاصر رہا خدا وند عالم نے اسے وہ نعمت عطا کردی،اگر انسان خدا وند عالم کی نعمتوں کو پہچان لیتا( کہ کس قدر وہ اپنے بندے مہر بان ہے اور اس کی ہر ضرورت چاہے وہ اُسے محسوس کرے یا نہ کرے اسے پورا کردیا) تو یہ معرفت اسے خدا کی نافرمانی سے بچا لیتی تو پھر واقعی پاک ہے وہ ذات کہ جس نے بہترین نعمتیں عنایت کیں اور لائق اور نا لائق سب پر کرم کیا اور بے ایمان افراد اسے جیسا سمجھتے ہیں وہ اس سے بہت برتر اور اعلیٰ ہے۔
جو چیزیں جسم میں سستی پیدا کرتی ہیں
الف۔ناشتے میں گرما کھانا
امام رضا علیہ السلام: ناشتے میں گرما کھاناِ(خدا کی پناہ!) جسم میں سستی پیدا کراتا ہے۔
ب۔مچھلی کھانے کے بعد ٹھنڈے سے پانی نہانا
امام رضا علیہ السلام:مچھلی کھانے کے بعد ٹھنڈے پانی سے غسل کرنا جسم میں سستی کا باعث ہے۔
جو چیزیں جسم کو سستی سے بچاتی ہیں
الف۔مچھلی کھانے کے بعد کھجور کھانا
الکافی:سعید بن جناح سے نقل ہے کہ امام کے ایک رشتہ دار کہتے ہیں کہ امام نے چند کھجور طلب کئے اور نوش فرمائے پھر فرمایا: ’’اس وقت میرا کھجور کھانے کا دل نہیں چاہ رہا تھا لیکن کیونکہ مچھلی کھائی تھی اس لئے کھجور کھالئے۔‘‘
پھر فرمایا:جو کوئی مچھلی کھائے اور اس کے بعد چند کھجوریں یا تھوڑا شہد نہ کھائے اور سو جائے تو صبح تک اس کے جسم پر سستی چھائی رہے گی۔
ب۔کھانسی
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم: چار چیزوں کو برا نہ سمجھو...... اور کھانسی کو،کیونکہ وہ فالج کے جراثیم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہے۔
ج۔دعا
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم:اَنس سے مخاطب ہو کر فرمایا:کیا تمہیں ایسی دعا نہ سکھاؤں جو اگر تم ہر روز صبح کی نماز کے بعد تین دفعہ پڑھو تو خدا وند عالم کوڑھ،برص،جسم کی سستی اور نابینائی کو تم سے دور کردے؟
کہو: اے خدا اپنی بارگاہ سے مجھے راہنمائی عطا کر،اپنے فضل و کرم کی مجھ پر بارش برسا،اپنی رحمت سے مجھے نعمت سے سرشار کردے اور اپنی برکتیں مجھ پر نازل فرما۔‘‘
جو چیزیں لقوہ سے محفوظ رکھتی ہیں
مکارم الاخلاق: رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے بارے میں اس طرح نقل ہوا ہے کہ ٓاپؐ نے ہاضم دوا(۲) آویشن(خوشبو دار جڑی بوٹی) اور کالا دانا منگوایا کیونکہ سفیدی والا یا ثقیل کھانا کھاتے تھے تو مذکورہ چیزوں کو پیس کر رکھتے تھے اور اس میں موٹا نمک ملاتے اور اپنے کھانے کا آغاز اس آمیزے سے کرتے اور فرمایا کرتے تھے: جب میں یہ چورن کھالیتا ہوں تو مجھے کوئی خوف نہیں ہوتا کہ کیا کھایا ہے۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم فرماتے تھے:’’یہ چورن معدے کو طاقت ور بناتا ہے،بلغم کو ختم کرتا ہے اور لقوے سے محفو ظ رکھتا ہے۔‘‘
جو چیزگھبراہٹ کو ختم کرنے لئے مفید ہے
طب الائمتہ:محمد ابن مسکان حلبی سے نقل ہے کہ امام کے ایک محب کے جواب میں جس نے کہا تھا کہ: اے سبطِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم! میری ایک بیٹی ہے جس کے لئے میرا دل دکھتا ہے اور میں اس کے لئے بہت پریشان ہوں کیونکہ دن رات کے اکثر اوقات میں اس پر گھبراہٹ طاری رہتی ہے اگر آپؑ مصلحت سمجھتے ہیں تو خدا سے اس کے لئے دعا کیجئے کہ خدا اسے شفا عطا کرے۔امام ؑ نے اس کے لئے دعا کی اور فرمایا: اس سے کہو کہ رگ کھلوائے کیونکہ اس سے تمہاری بیٹی کو فائدہ ہوگا۔
فصل تیسری
آنکھ
آنکھ میں پوشیدہ حکمتیں
امام علی علیہ السلام: اس انسان کی خلقت پر حیران ہوئے بغیر نہیں رہا جاسکتا! ایک چربی کے ٹکڑے سے دیکھتا ہے،ایک گوشت کے ٹکڑے سے بولتا ہے،ایک ہڈی کے ٹکڑے کی مدد سے سنتا ہے اور ایک سوراخ سے سانس لیتا ہے۔
امام صادق علیہ السلام: ہندوستانی طبیب سے مناظرہ کرتے ہوئے فرمایا:پیشانی پر بال نہیں کیونکہ پیشانی سے گزر کر روشنی آنکھ تک پہنچتی ہے،اور پیشانی پر بل ڈالے گئے ہیں تاکہ سر سے بہنے والا پسینہ پیشانی کی سلوٹوں پر رک جائے اور آنکھوں میں جائے یہاں تک کہ انسان اس پسینے کو صاف کرلے جیسے زمین پر نہریں پانی کو اپنے اندر محبوس کرلیتی ہیں۔
بھنویںآنکھوں کے اوپر بنائی گئی ہیں تاکہ آنکھوں کو جس قدر روشنی کی ضرورت ہے اتنی ہی پہنچے۔اے ہندوستانی!کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب شدید روشنی ہوتی ہے تو انسان اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھ لیتا ہے تاکہ بحدِ ضرورت روشنی آنکھوں تک پہنچے۔
آنکھ کی ساخت بادام کی طرح ہے تاکہ سلائی کے ذریعے دوا آنکھ میں ڈالی جاسکے اور بیماری(انفیکشن) آنکھ سے ختم ہوسکے،اگر آنکھ چوکور یا گول ہوتی نہ سلائی اس میں ڈالی جاسکتی نہ دوا اس کے ہر حصّے تک پہنچ پاتی اور نہ بیماری جو آنکھ کو لگ جاتی ختم ہو پاتی۔
امام صادق علیہ السلام:مفضل ابن عمر:اے مفضل!اب ان حواس پر غور کروجو خدا وند عالم نے تمام مخلوقات کے درمیان میں سے فقط انسان کو عطا کئے ہیں اور انسان کو دوسری مخلوقات پر فوقیت دی ہے دیکھو تو کیسے آنکھوں کو مینار کے اوپر روشن چراغ کی مانند بنایا اور آنکھوں کو انسان کے سر میں قرار دیا تاکہ وہ ہر چیز کو تحت نظر قرار دے سکے اور نچلے اعضاء(جیسے ہاتھ اور پاؤں) میں آنکھ کو قرار نہ دیا کہ گزند اس تک پہنچے اور نچلے اعضاء کے ذریعے کام یا حرکت کرنے کی بنا پر آنکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے،اور اس کی قوت بینائی میں کمی واقع ہو،اسی طرح آنکھوں کو درمیانی اعضاء جیسے(پیٹ اور کمر) میں نہ رکھا کہ آنکھوں کو گھمانے اور چیزوں کے دیکھنے میں دشواری کا سامنا نہ ہو اب جبکہ ہماری آنکھ ان میں سے کسی اعضاء میں نہیں ہے اور تمام حواس کا مرکز سر ہے اور آنکھوں کے لئے اسی اعلیٰ ترین جگہ کا انتخاب کیا اور سر ہی تمام حواس کی آماجگاہ ہے۔
حواس بھی پانچ رکھے گئے پانچ چیزوں کو محسوس کریں تاکہ کوئی چیز محسوسات میں سے نہ رہ جائے۔آنکھ خلق کی گئی تاکہ رنگوں کو دیکھے،اگر رنگ ہوتے اور کوئی آنکھ انہیں دیکھ نہیں سکتی تو رنگوں کا کسی قسم کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔
کان خلق کئے تاکہ وہ آوازوں کو سن سکے اگر آوازیں ہوتیں مگر سننے کے لئے کان نہ ہوتے تو پھر آوازں کی کوئی ضرورت نہ ہوتی اور نہ ہی آوازوں سے کوئی مطلب سمجھ میں آتا نہ آوازیں ضرورت پوری کرنے کی صلاحیت رکھتیں،دوسرے حواس بھی اسی طرح ہیں۔
دوسری طرف سے بھی معاملہ ایسا ہی ہے یعنی اگر آنکھیں ہوتیں لیکن رنگ نہ ہوتے تو آنکھوں کا کوئی فائدہ نہ ہوتا یا اگر کان ہوتے لیکن کوئی آواز نہ ہوتی تو کان کی کوئی افادیت نہ ہوتی تو دیکھو تو! کہ یہ حواس اور محسوسات ایک دوسرے سے ہم آہنگ اور متناسب ہیں اور ہر حس کا کوئی محسو س ہے جو اس حس پر اثر انداز ہوتا ہے اور ہر محسوس کے لئے ضرور کوئی حس ہے جس کو حس محسوس کرتی ہے اس کے باوجود بعض چیزیں جیسے روشنی اور ہوا حواس اور محسوسات کے درمیان آپس میں رابطہ اور وسیلہ ہیں کیونکہ حواس اس کی کمک کے بغیر کامل نہیں ہوتے کیونکہ اگر رنگ پر پڑنے والی روشنی نہ ہوتی تو آنکھوں کو نہ دیکھ سکتی اور اگر ہوا نہ ہوتی تو کان آواز کو نہ سن سکتے۔
جو شخص بھی غور کرے اور ان چیزوں کے متعلق فکر کرے ان حواس اور محسوسات کے درمیان رابطے کو سمجھے اور ان چیزوں کے متعلق آگاہی پیدا کرے جو محسوس کو حواس تک پہنچانے میں مددگار ہوتے ہیں کیا اس کے علاوہ کچھ اور سمجھ سکتا ہے کہ خدا کی مخلوق ایک خاص مقصد کے تحت خلق ہوئی ہے؟
اے مفضل! ایک نابینا اور اس کے کانوں میں ہونے والے خلل کو ملاحظہ کرو 
غور کرو کہ نہ اپنے قدم کو دیکھ پارہا ہے نہ ہی مختلف رنگوں کا فرق محسوس کرسکتا ہے نہ ہی خوبصورت مناظر کے حسن کو دیکھتا ہے نہ ہی اپنے سامنے کھڑے کو دیکھ پاتا ہے اور نہ دشمن کو دیکھ پاتا ہے اور نہ ہی اس کے حملے کو دیکھ رہا ہے اسی قسم کے دوسرے امور بھی انجام نہیں دے سکتا۔یہاں تک کہ اگر فکر و ذہن کی کارکردگی نہ ہوتی تو زمین کے کنارے پر پڑے ایک سنگ کی مانند ہوتا۔
اے مفضل!پلکوں کو دیکھو اور اس میں غور کرو اور دیکھو کیسے اس میں باریک باریک بال موجود ہیں جو آنکھ کی حفاظت کرتے ہیں اور کس طرح آنکھ کو ایک گہرائی میں محفوظ رکھا ہے اور پلکوں کے ذریعے اسے ڈھانپ رکھا ہے۔
ٓآنکھوں کی بعض بیماریوں کے اسباب
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم:جو شخص مسئلہ قضا و قدر میں زیاد ہ سوچ بچار کرتا ہے اس کی مثال اس شخص کی ہے جو سورج کی جانب غور سے دیکھے جتنازیادہ سورج کو دیکھے گا اتنی ہی اس کی بینائی کمزور ہوجائے گی۔
امام رضا علیہ السلام:رات کے وقت تُرنج کھانا بھینگے پن کا سبب بنتا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضرت علی علیہ السلام کو نصیحت:اے علی! ایسا نہ ہو کوئی نزدیکی کے وقت اپنی بیوی کی شرم گاہ کی طرف نگاہ کرے بلکہ آنکھوں کو بند رکھے کیونکہ شرم گاہ کی طرف دیکھنا بچے کی نا بینائی کا سبب بنتی ہے۔
امام علی علیہ السلام:ایسا نہ ہو کہ تم میں سے کوئی اپنی بیوی کی شرم گاہ کے اندر دیکھے کیونکہ ممکن ہے کہ ایسی چیز دیکھو جو تمہارے لئے خوشگوار نہ ہو اور شاید نابینائی کا سبب بن جائے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضرت علی علیہ السلام کو نصیحت: اے علی علیہ السلا :ظہر کے بعد بیوی سے ہم بستری نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس عمل کے نتیجے میں اولادہو تو وہ بھینگی ہوگی اور شیطان انسان کے بھینگے پن سے خوش ہوتا ہے۔
امام رضا علیہ السلام:سردی اور خزاں میں رات کے ابتدائی حصّے میں ہمبستری نہ کرو کیونکہ اس وقت معدہ اور گیس پُر ہیں اور یہ بات نا پسندیدہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بینائی میں کمزوری اور عقل میں کمی کا خطرہ بھی ہے۔
(وہ چیزیں جو بینائی میں اضافہ کرتی ہیں: بالوں کو چھوٹا کرنا)
انکھوں کی بعض بیماریوں سے بچاؤ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم: چار چیزوں کو پسند نہ کرو.......آنکھوں کی تکلیف،کیونکہ نابینائی کی رگوں کو ختم کردیتی ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم : جو کوئی بھی جمعر ات اور ہفتے کے روز ناخن کاٹے اور مونچھوں کو چھوٹا کرے دانت اور آنکھوں کی تکلیف سے محفوظ رہے گا۔
امام محمد باقر علیہ السلام:جو شخص ہر جمعرات مستقل طور پر ناخن کاٹے آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا نہ ہوگا۔
کتاب من لا یحضرہالفقیہ:عبداللہ بن یعفور نے امام صادق علیہ السلام سے عرض کی:میری جان آپؑ پر قربان!کہا جاتا ہے صبح صادق سے طلوع خورشید کی تعقیبات سے زیادہ کوئی چیز روزی کے نزول کا سبب نہیں ہوتی۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: ہاں! لیکن میں اس سے بہتر چیز بتاتا ہوں:جمعہ کے دن نا خن اوہ مونچھیں کاٹنا اور جمعرات کو ناخن کاٹنا آنکھ کی تکلیف کو دور کرتا ہے۔
امام صادق علیہ السلام:جمعہ کے دن ناخن کاٹنا جذام،کوڑھ اور نابینائی سے امان میں رکھتا ہے۔اگر کاٹنے کی ضرورت نہ ہو تو انہیں رگڑ لیا جائے۔
الکافی:علی بن اسباط سے نقل کیا کہ خراسان میں امام رضا علیہ السلام سے ملاقات ہوئی جبکہ میں آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا تھا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: چاہتے ہو تمہیں ایسی چیز کی طرف راہنمائی کروں جس سے آنکھوں کی تکلیف بر طرف ہوجائے؟ 
میں نے کہا: کیوں نہیں
امام نے فرمایا: ہر جمعرات کو ناخن کاٹا کرو۔
راوی کہتا ہے: میں نے اس عمل کیا اور اس کے بعد سے آج تک آنکھ کی تکلیف میں مبتلا نہ ہوا۔
امام صادق علیہ السلام: سونے سے پہلے سرمہ لگانا آنکھوں سے پانی بہنے کو روکتا ہے۔
امام صادق علیہ السلام: جو شخص ااثمد کا سرمہ استعمال کرے جو مشک ملا نہ ہو جب تک استعمال کرتا رہے گاموتیا سے محفوظ رہے گا۔
امام صادق علیہ السلام:مرد،جب روزہ رکھتا ہے تو اس کی بینائی میں ضعف طاری ہوتا ہے لیکن جب میٹھی چیز سے افطار کرتا ہے تو اس کی بصار ت بحال ہوجاتی ہے۔
مکارم الاخلاق:ابو بصیر امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں:زیادہ چھیکنا ، انسان کو پانچ بیماریوں سے امان میں رکھتا ہے پہلی جذام، دوسری وہ گیس جو چہرے اور سر میں تکلیف کا سبب بنتی ہے،تیسری موتیا کا پانی،چوتھی ناک کے نتھنوں میں سختی اور پانچویں آنکھوں سے بال نکلنا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:اگر چاہتے ہو چھینک کم ہوجائے تو( مرز نجوش) کا تیل ناک میں ڈالو۔
میں نے پوچھا: کتنا؟
امام نے فرمایا : تقریباً آدھا مثقال یا 0.5 گرام۔
راوی کہتاہے: اس کام کو پانچ دن انجام دیا اور بیماری ختم ہوگئی۔
(بقیہ آئندہ انشاء اللہ)

No comments:

Post a Comment